کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 578
تیری پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے اور اس چیز کے شر سے جس پر تو نے اسے پیدا کیا ہے۔‘‘[1] ٭ ارادئہ جماع کے وقت کی دعا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آتے وقت یہ دعا پڑھے اگر اس(کے نتیجے)میں اولاد مقدر ہو جائے تو شیطان اسے نقصان نہیں دے سکے گا:((بِسْمِ اللّٰہِ،اَللّٰھُمَّ!جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا)) ’’اللہ کے نام سے،اے اللہ!ہم سے شیطان کو دور کر اور جو(اولاد)تو ہمیں عطا فرمائے،اس سے بھی شیطان کو دور کر۔‘‘[2] ٭ مرد اور عورت ایک دوسرے کے راز افشا نہ کریں: میاں بیوی کی باہمی جنسی گفتگو(اور دیگر رازوں)کا اظہار کرنا دونوں کے لیے ناجائز ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللّٰہِ مَنْزِلَۃً یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ الرَّجُلَ یُفْضِي إِلَی امْرَأَتِہِ وَتُفْضِي إِلَیْہِ،ثُمَّ یَنْشُرُ سِرَّھَا)) ’’اللہ کے نزدیک قیامت کے دن اس آدمی کا مقام بہت ہی برا ہو گا جو اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے اور وہ اس کے پاس جاتی ہے اور پھر وہ اپنے راز پھیلا دیتا ہے۔‘‘[3] ٭ نکاح کی شرائط: عورت اگر عقد نکاح میں ایسی شرطیں تسلیم کراتی ہے جو نکاح کے اصل مقاصد میں داخل ہیں اور اس کی پختگی کا باعث ہیں،مثلاً:اپنے لیے نفقہ یا جماع یا دوسری بیوی کی موجودگی میں درست تقسیم(انصاف)کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ شروط ’’عقد نکاح‘‘ کے ساتھ ہی نافذ ہو جائیں گی اور اگر یہ شرطیں ایسی ہیں جو ’’مقاصد نکاح‘‘ کو فوت کرتی ہیں،مثلاً:یہ کہ مرد اس کے ساتھ جماع نہیں کرے گا،وہ کھانے،پینے کی چیزیں تیار نہیں کرے گی،جبکہ یہ کام اس علاقے میں عام طور پر عورت کی ذمہ داری میں داخل ہوں تو ایسی شرطیں لغو ہیں،ان کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے،اس لیے کہ یہ’’مقصد نکاح‘‘کے منافی ہیں۔لیکن اگر شرائط مذکورہ ازدواجی دائرے سے خارج انداز کی ہیں،مثلاً:عورت یہ شرط عائد کرتی ہے کہ وہ اپنے قرابت داروں کو ملنے جایا کرے گی یا اسے اس کے شہر سے باہر نہیں لے جائے گا تو ان کا پورا کرنا ضروری ہے،اگر مرد یہ شرطیں پوری نہیں کرتا تو عورت کو نکاح فسخ کرانے کا حق حاصل ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ یُّوَفّٰی بِہِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِہِ الْفُرُوجَ‘
[1] [حسن] سنن ابن ماجہ، النکاح، باب مایقول:، حدیث: 1918، وسنن أبي داود، النکاح، باب في جامع النکاح، حدیث: 2160۔ [2] صحیح البخاري، الوضوء، باب التسمیۃ علٰی کل حال:، حدیث: 141، وصحیح مسلم، النکاح، باب ما یستحب أن یقولہ عندالجماع، حدیث: 1434۔ [3] صحیح مسلم، النکاح، باب تحریم إفشاء سر المرأۃ، حدیث:1437۔