کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 576
﴿أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ﴾(اٰل عمران 102:3)
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا﴾(النسآء 1:4)
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا﴿٧٠﴾يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا﴾(الأحزاب 71,70:33)
’’اے ایمان والو!اللہ سے کما حقہ ڈرو اور تمھاری موت اسلام ہی پر آئے۔اے لوگو!اپنے پروردگار سے ڈرو،جس نے تم کو ایک جان(آدم علیہ السلام)سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی(حوا علیہ السلام)بنائی اور(پھر)دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں(کا لحاظ کرو)بے شک اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو،وہ تمھارے اعمال درست کر دے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے،اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی۔‘‘[1]
٭ دعوتِ ولیمہ:
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ‘’’ولیمہ کرو،چاہے ایک بکری کے ذریعے سے ہو۔‘‘[2]
خاوند کی طرف سے دیے گئے شادی کے کھانے کو ’’ولیمہ‘‘ کہتے ہیں اور دعوت ولیمہ قبول کرنا واجب ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:’مَنْ دُعِيَ إِلٰی عُرْسٍ أَوْ نَحْوِہِ فَلْیُجِبْ‘’’جسے شادی وغیرہ کے لیے بلایا جائے،اسے چاہیے کہ قبول کرے۔‘‘[3]
البتہ شادی کی تقریب میں لہو و لعب اور ناجائز کام ہو رہے ہوں تو شرکت نہ کرے [4] اگر دو آدمیوں کی دعوت موصول ہو گئی ہے تو جس نے پہلے پیغام دیا ہو،اس کی دعوت قبول کر لے۔نیز ’’ولیمے‘‘ میں اغنیاء کے ساتھ ساتھ فقراء کو بھی بلانا چاہیے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الْوَلِیمَۃِ یُمْنَعُھَا مَنْ یَّأْتِیھَا،وَیُدْعٰی إِلَیْھَا مَنْ یَّأْبَاھَا))
[1] [ضعیف] سنن أبي داود، النکاح، باب في خطبۃ النکاح، حدیث: 2118 وإسنادہ معلول۔ جبکہ شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
[2] صحیح البخاري، النکاح، باب قول الرجل لأخیہ: اُنظر:، حدیث: 5072، وصحیح مسلم، النکاح، باب الصداق:، حدیث: 1427۔
[3] صحیح مسلم، النکاح، باب الأمر بإجابۃ الداعي إلٰی دعوۃ،حدیث: 1429۔
[4] جیسا کہ سنن ابن ماجہ، الأطعمۃ، باب إذا رأی الضیف منکراً رجع، حدیث: 3359، میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھانا تیار کیا اور آپ کو دعوت دی، آپ تشریف لائے، جب گھر میں تصویریں دیکھیں تو واپس چلے گئے۔ (مؤلف)