کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 567
’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے بارے میں عدل و انصاف کرو۔‘‘[1]
2: ’’ہبہ‘‘ کر کے واپس لینا حرام ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’اَلْعَائِدُ فِي ھِبَتِہِ کَالْعَائِدِ فِي قَیْئِہِ‘ ’’ہبہ‘‘ واپس لینے والا،اس شخص کی طرح ہے جو اپنی قے کھا لیتا ہے۔‘‘[2]
اِلَّا یہ کہ ’’ہبہ‘‘ کرنے والا والد ہو تو وہ اپنی اولاد کو ’’ہبہ‘‘ کر کے واپس لے سکتا ہے،اس لیے کہ اولاد اور ان کا مال ’’والد‘‘ ہی کا تو ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اقدس ہے:((لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ یُّعْطِيَ عَطِیَّۃً فَیَرْجِعَ فِیھَا إِلَّا الْوَالِدَ فِیمَا یُعْطِي وَلَدَہُ))
’’کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ عطیہ کر کے واپس لے مگر والد جو اپنی اولاد کو دیتا ہے۔‘‘[3]
3: ’’عوض‘‘ ملنے کی نیت سے’ ’ہبہ‘‘ کرنا درست نہیں ہے،یعنی ایک مسلمان اس لیے ’’ہبہ‘‘ کرے تا کہ دوسرا اس سے بڑھ کر کوئی چیز بدل دے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللّٰهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللّٰهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ﴾
’’اور جو تم سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں افزائش ہو تو اللہ کے ہاں اس میں افزائش نہیں ہوتی اور جو تم زکاۃ دیتے ہو تم اس سے اللہ کی رضا طلب کرتے ہو تو ایسے ہی لوگ(دنیا و آخرت میں اپنے مال کو)بڑھانے والے ہیں۔‘‘[4]
اور جس کو اس شرط پر’ ’ہدیہ‘‘ دیا جا رہا ہوکہ وہ اسے اس کا عوض دے گا تو اسے اختیار ہے،چاہے قبول کرے یا رد کر دے اور اگر اس نے قبول کر لیا تو اس کے مساوی یا زیادہ اس کے ’’عوض‘‘ میں ’ ’ہبہ‘‘ کرنا لازم ہے،اس لیے کہ اب یہ بیع والی صورت بن گئی ہے،علاوہ ازیں ہدیے کے مقابلے میں ہدیہ دینے کی ترغیب بھی آئی ہے،سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:’کَانَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقْبَلُ الْھَدِیَّۃَ وَیُثِیبُ عَلَیھَا‘
’’نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ’’ہدیہ‘‘ قبول کرتے تھے اور اس کا بدلہ بھی دیتے تھے۔[5]
[1] صحیح البخاري، الھبۃ :، باب الإشھاد في الھبۃ، حدیث: 2587، وصحیح مسلم، الھبات، باب کراھۃ تفضیل بعض الأولاد في الھبۃ، حدیث: 1623 واللفظ لہ۔بلکہ لازم ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد میں سے بعض کو عطیہ دینے اور بعض کو محروم رکھنے کے اس انداز کو ظلم اور واجب الرد قرار دیا ہے۔ بنا بریں والد یا تو وہ عطیہ واپس لے یا باقی اولاد کو بھی اس کے برابر عطیات دے۔ (الاثری)
[2] صحیح البخاري، الھبۃ:، باب لا یحل لأحد أن یرجع في ھبتہ وصدقتہ، حدیث: 2621، وصحیح مسلم، الھبات، باب تحریم الرجوع في الصدقۃ، حدیث: 1622۔
[3] [صحیح] جامع الترمذي، البیوع، باب ما جاءفي کراھیۃ الرجوع في الھبۃ، حدیث: 1299، اسے ابن حبان، حاکم اور ذہبی وغیرہ نے صحیح کہا ہے۔
[4] الروم 39:30۔
[5] صحیح البخاري، الھبۃ:، باب المکافأۃ في الھبۃ، حدیث: 2585۔