کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 56
قیراط(اجرت)کے مستحق ٹھہرے،پھر انجیل والوں کو انجیل ملی،وہ نمازِ عصر پڑھے جانے تک اس پر عمل کرتے رہے،پھر عاجز آگئے اور ایک ایک قیراط کے مستحق بنے۔(عمل کی مدت کم لیکن مزدوری اہلِ تورات کے برابر)،پھر تمھیں قرآن ملا،تم نے غروب آفتاب تک اس پر عمل کیا اور دو دو قیراط کے مستحق قرار دیے گئے۔اہل کتاب نے(یہ بات سنی تو)کہا:’’ان لوگوں کے عمل کا وقت ہم سے تھوڑا ہے اور اجرت زیادہ۔‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’کیا میں نے تمھارے حق میں کمی کی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا:’’نہیں۔‘‘ فرمایا:’’پھر یہ میرا فضل ہے،جسے چاہوں(زیادہ)دوں۔‘‘[1] نیز فرمایا: ((خُفِّفَ عَلٰی دَاوُدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ الْقُرْآنُ فَکَانَ یَأْمُرُ بِدَوَابِّہِ فَتُسْرَجُ فَیَقْرَأُ الْقُرْآنَ(التَّوْرَاۃَ،أَوِ الزَّبُورَ)قَبْلَ أَنْ تُسْرَجَ دَوَابُّہُ،وَلَا یَأْکُلُ إِلَّا مِنْ عَمَلِ یَدَیْہِ)) ’’داود علیہ السلام پر قرآن(قراء ت)آسان کردیا گیا تھا۔وہ گھوڑوں پر زین رکھنے کا حکم دیتے اور زین لگانے سے قبل کتاب اللہ کی قراء ت مکمل کر لیتے اور اللہ تعالیٰ کے یہ نبی علیہ السلام صرف اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔‘‘[2] مزید فرمایا:((لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَیْنِ:رَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ الْقُرْآنَ فَہُوَ یَتْلُوہُ آنَائَ اللَّیْلِ وَ آنَائَ النَّہَارِ)) ’’رشک صرف دو آدمیوں پر کرنا چاہیے،(ان میں سے)ایک وہ(ہے)جسے اللہ نے دولتِ قرآن سے نوازا ہے اور وہ دن اور رات کی گھڑیوں میں قرآن پڑھتارہتا ہے۔‘‘[3] یہ بھی فرمایا:((تَرَکْتُ فِیکُمْ مَّا إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہِ فَلَنْ تَضِلُّوا أَبَدًا:کِتَابُ اللّٰهِ وَسُنَّۃُ نَبِیِّہِ)) ’’میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں،اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا(اس پر عمل کیا)تو ہرگز کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے،(وہ چیز)اللہ کی کتاب اور اس کے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)کی سنت ہے۔‘‘[4] آپ نے فرمایا:((لَا تُصَدِّقُوا أَہْلَ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوہُمْ،وَقُولُوا:اٰمَنَّا بِالَّذِي أُنْزِلَ إِلَیْنَا وَ أُنْزِلَ إِلَیْکُمْ،وَ إِلٰہُنَا وَ إِلٰہُکُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُونَ)) ’’اہل کتاب کی تصدیق اور تکذیب نہ کرو اور کہو کہ ہم اس پر،جو ہماری طرف اور جو تمھاری طرف اتارا گیا ہے،
[1] صحیح البخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالٰی: قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا.. ، حدیث: 7533۔ [2] صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء ،باب قول اللّٰہ تعالٰی: ، حدیث: 3417، و مسند أحمد: 314/2۔ میں قرآن کی جگہ قراء ت کا لفظ ہے ۔ جس سے وضاحت ہو جاتی ہے کہ قرآن سے مراد بھی تورات ، زبور کی قراء ت ہے ۔ [3] صحیح البخاري، التوحید، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم : ’رجل آتاہ اللّٰہ القرآن:‘، حدیث: 7529۔ [4] [حسن لغیرہ] المستدرک للحاکم: 93/1، حدیث: 318، والموطأ للإمام مالک ،القدر، باب النہي عن القول بالقدر، حدیث: 1708 اس روایت کے متعدد شواہد ہیں ۔