کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 559
اور فرمایا:﴿مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ﴾ ’’وراثت کی تقسیم ’’وصیت‘‘ کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہے۔‘‘[1] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا حَقُّ امْرِیئٍ مُّسْلِمٍ،لَہُ شَيْئٌ یُّوصِي فِیہِ یَبِیتُ لَیْلَتَیْنِ إِلَّا وَوَصِیَّتُہُ مَکْتُوبَۃٌ عِنْدَہُ)) ’’جس مسلمان کے پاس قابل وصیت چیز ہے تو وہ دو راتیں بھی نہ گزارے،الّا یہ کہ اس کے پاس ’’وصیت‘‘ لکھی ہوئی ہو۔‘‘[2] جس نے قرض دینا ہے یا اس کے پاس کسی کی امانت ہے یا اس نے کسی کا حق دینا ہے تو اس پر ’ ’وصیت‘‘کرنا لازم ہے،اس لیے کہ خطرہ ہے کہ وہ فوت ہو جائے اور لوگوں کے اموال ضائع ہو جائیں اور قیامت کے دن اس سے باز پرس ہو اور اسی طرح جس کے پاس دولت کی بہتات ہے اور اس کے وارث غنی ہیں،اسے بھی چاہیے کہ غیر وارث قرابت داروں کے لیے تہائی یا اس سے کم کی وصیت کرے یا کسی نیکی کے کام میں وصیت کرے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے: ((یَقُولُ اللّٰہُ تَعَالٰی:یَا ابْنَ آدَمَ ثِنْتَانِ لَمْ یَکُنْ لَّکَ وَاحِدَۃٌ مِّنْھُمَا،جَعَلْتُ لَکَ نَصِیبًا فِي مَالِکَ حِینَ أَخَذْتُ بِکَظَمِکَ لِأُطَھِّرَکَ بِہِ وَأُزَکِّیَکَ،وَصَلَاۃُ عِبَادِي عَلَیْکَ بَعْدَ انْقِضَائِ أَجَلِکَ)) ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اے ابن آدم!دو چیزیں تیرے پاس نہیں تھیں،میں نے تیری موت کے وقت تجھے تیرے مال میں سے ایک حصہ دیا تاکہ تجھے پاک اور صاف کروں اور موت کے بعد اپنے بندوں کی تیرے حق میں دعائیں تجھے دی ہیں۔‘‘٭[3] سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وصیت کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا: ((اَلثُّلُثُ،وَالثُّلُثُ کَثِیرٌ،إِنَّکَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَکَ أَغْنِیَائَ خَیْرٌ مِّنْ أَنْ تَذَرَھُمْ عَالَۃً یَّتَکَفَّفُونَ النَّاسَ)) ’’تہائی مال تک وصیت کرو اور یہ بھی بہت ہے۔تم اپنے ورثاء کو غنی چھوڑو یہ بہتر ہے اس سے کہ وہ تنگ دست ہوں اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔‘‘[4] ٭ یعنی میں نے وصیت کو مشروع کیا تا کہ تو درست وصیت کر کے ثواب کمائے جو مغفرت اور بلندیٔ درجات کا سبب ہے۔(ع،ر)
[1] النسآء 12:4۔ [2] صحیح البخاري، الوصایا، باب الوصایا، حدیث: 2738، وصحیح مسلم، الوصیۃ، باب: وصیۃ الرجل مکتوبۃ عندہ، حدیث: 1627 [3] [ضعیف] سنن ابن ماجہ، الوصایا،باب الوصیۃ بالثلث، حدیث: 2710، و عبد بن حمیدفي مسندہ کذا في تفسیر ابن کثیر: 298/1، البقرۃ 2: 180 واللفظ لہ، اس کی سند مبارک بن حسان کی وجہ سے ضعیف ہے۔ [4] صحیح البخاري، الفرائض، باب میراث البنات، حدیث: 6733، وصحیح مسلم، الوصیۃ، باب الوصیۃ بالثلث، حدیث: 1628 واللفظ لہ۔