کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 552
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ دن کو مال والے(اپنے کھیت وغیرہ کی)حفاظت کریں اور رات کو جانوروں والے ان کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں(رات کو جانور نقصان کریں تو ان کے مالک ذمہ دار ہیں)۔‘‘ [1] 11: جس جانور کے ساتھ سوار یا ہانکنے والا نہیں ہے اور اس نے کسی کا نقصان کر دیا تو اس میں ضمان نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’اَلْعَجْمَائُ جُبَارٌ‘ ’’بے زبان جانور نقصان کرے تو وہ ’’ضائع‘‘ ہے۔[2] اسی طرح اگر مالک جانور پر سوار ہے مگر اپنے(پچھلے)پاؤں سے اس نے کسی کا نقصان کر دیا تو وہ بھی ’’ضائع‘‘ ہے۔اس لیے کہ آپ کا فرمان ہے:’اَلرِّجْلُ جُبَارٌ‘ ’’بے زبان جانور کے(پچھلے)پاؤں کا نقصان(ضائع)ہے۔[3]البتہ اپنے منہ یا اگلے پاؤں سے اگر ایسا جانور جس پر مالک سوار ہے،نقصان کر دے تو اس کی ’’ضمان‘‘ ہو گی۔‘‘ لقطہ اور لقیط کا بیان: ٭ لقطہ کی تعریف: لقطہ اس چیز کو کہتے ہیں جو ایسی جگہ سے ملے جو کسی شخصی ملکیت میں نہ ہو،مثلاً:راستے میں پیسے یا کپڑے مل جائیں اور ان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے تو اسے اٹھا لینا۔ ٭ لقطہ کا حکم: لقطہ کا اٹھالینا جائز ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((اِعْرِفْ عِفَاصَھَا وَوِکَائَ ھَا،ثُمَّ عَرِّفْھَا سَنَۃً،فَإِنْ جَائَ صَاحِبُھَا وَإِلَّا فَشَأْنَکَ بِھَا)) ’’اس(ملنے والی)چیز کی تھیلی اور باندھنے والی رسی کی پہچان رکھ،پھر ایک سال تک اعلان کرتا رہ،اگر اس کا مالک آجائے تو اسے دے دے،ورنہ اسے اپنے کام میں لگا لے۔‘‘[4] اور گم شدہ بھیڑ بکری کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا:((خُذْھَا فَإِنَّمَا ھِيَ لَکَ أَوْ لِأَخِیکَ أَوْ لِلذِّئْبِ)) ’’اسے پکڑ لے،وہ تو پکڑے گا یا تیرا کوئی اور بھائی یا پھر اسے بھیڑیا کھا جائے گا۔‘‘[5] مگر وہی شخص گم شدہ چیز اٹھائے جسے اپنی امانت پر اعتماد ہے اور جو اپنی دیانت و امانت پر یقین نہیں رکھتا وہ اسے نہ اٹھائے،اس لیے کہ مسلمانوں کے مالوں کی تباہی کے درپے ہونا جائز نہیں ہے۔ ٭ لقطہ کے احکام: 1: اگر گری پڑی چیز معمولی ہے اور متوسط لوگ اس کی پروا نہیں کرتے،مثلاً:کھجور کا دانہ،
[1] [حسن] سنن أبي داود، القضاء، باب المواشي تفسد زرع قوم،حدیث: 3569، ومسند أحمد: 436/5۔ [2] صحیح البخاري، الزکاۃ،باب في الرکاز الخمس،حدیث: 1499، وصحیح مسلم، الحدود،باب جرح العجماء:، حدیث: 1710۔ [3] [ضعیف] سنن أبي داود، الدیات، باب في الدابۃ تنفح برجلھا، حدیث: 4592، اس کی سند سفیان بن حسین عن الزہری کی وجہ سے ضعیف ہے۔ [4] صحیح البخاري، المساقاۃ،باب شرب الناس:، حدیث: 2372، وصحیح مسلم، اللقطۃ، باب:معرفۃ العفاص والوکاء:، حدیث: 1722۔ [5] صحیح البخاري، اللقطۃ، باب ضالۃ الغنم، حدیث: 2428، وصحیح مسلم، اللقطۃ، باب معرفۃ العفاص والوکاء:، حدیث: 1722۔