کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 545
3: ’’خلیفۂ اہل اسلام‘‘ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے چراگاہ نہ بنائے بلکہ عام مسلمانوں کی مصلحتوں کے لیے ایسا کرے۔ 4: مذکورہ بالا پر قیاس کر کے ان پہاڑوں کو بھی اس میں داخل کیا جا سکتا ہے جنھیں حکومت درختوں کی افزائش کے لیے مختص کر لیتی ہے۔اگر یہ مسلمانوں کی عمومی مصلحت کے تحت ہے تو اس کو بحال رکھا جائے اور اگر اس سے عام لوگوں کا نقصان ہو رہا ہے اور کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو رہا تو اس فیصلے کو تبدیل کر دیا جائے،اس لیے کہ چراگاہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی ہوتی ہے۔ باب:5 قرض،وصیت اور چند دیگر احکام قرض کا بیان: ٭ قرض کی تعریف: ’’قرض‘‘ کا لغوی معنی کاٹنا ہے اور شرعًا کسی کو فائدہ حاصل کرنے کے لیے مال دینا،مثلاً:ایک ضرورت مند کہتا ہے:مجھے اتنا مال یا سامان یا جانور اتنی مدت کے لیے بطور ’’قرض‘‘ دے،پھر میں اس کا بدل(عوض)دے دوں گا اور وہ اسے دے دے۔ ٭ قرض کا حکم: قرض دینے والے پر قرض دینا مستحب ہے،اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:﴿مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ﴾ ’’کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے اور اللہ اس کے لیے اسے(ثواب میں)بڑھائے اور اس کے لیے اچھا اجر ہو۔‘‘[1] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’مَنْ نَفَّسَ عَنْ أَخِیہِ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ الدُّنْیَا،نَفَّسَ اللّٰہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ‘ ’’جو شخص اپنے بھائی سے دنیا کا غم و تکلیف دور کرتا ہے،اللہ قیامت کے روز اس کے غم اور تکلیف کو دور کرے گا۔‘‘[2] اور ’’قرض‘‘ لینے والے کے لیے ’’قرض‘‘ لینا جائز اور مباح ہے،اس میں کوئی حرج نہیں ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ ’’قرض‘‘ کے طور پر لیا تھا اور اس سے بہتر کی ادائیگی کی تھی۔اور فرمایا:’إِنَّ خِیَارَکُمْ أَحْسَنُکُمْ قَضَائً‘’’تم میں سے سب سے اچھا انسان وہ ہے جوبہتر طریقے پر ادائیگی کرے۔‘‘[3]
[1] الحدید 11:57۔ [2] صحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب فضل الاجتماع علٰی تلاوۃ القرآن وعلَی الذکر، حدیث: 2699، وجامع الترمذي، القراء ات، باب ماقعد قوم في مسجد:، حدیث: 2945۔ [3] صحیح البخاري، الوکالۃ، باب وکالۃ الشاہد والغائب جائزۃ، حدیث: 2305، وصحیح مسلم، المساقاۃ، باب، جواز اقتراض الحیوان:، حدیث: 1601۔