کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 543
4: امام کو یہ بھی اختیار ہے کہ بازار،کھلے میدان اور وسیع راستوں میں کسی کو فائدہ حاصل کرنے کے لیے کوئی جگہ مختص کر دے اگر عام لوگوں کا اس سے نقصان نہ ہوتا ہو،اس طرح وہ شخص فائدہ حاصل کرنے میں دوسروں سے فائق ہو گا مگر مالک نہیں قرار پائے گا۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’مَنْ سَبَقَ إِلٰی مَالَمْ یَسْبِقْہُ إِلَیْہِ مُسْلِمٌ فَھُوَ لَہُ‘ ’’جو شخص کسی ایسی جگہ پہلے پہنچے،جہاں کوئی دوسرا مسلمان نہیں پہنچا تو وہ اس کا زیادہ مستحق ہے۔‘‘[1] 5: امام نے جس کو کوئی جگہ دی ہے یا امام کے دیے بغیر وہ اس پر قابض ہو گیا ہے تو وہ کسی کو نقصان نہ پہنچائے،یعنی دوسروں کے لیے بھی رکاوٹ نہ پیدا کرے،اس لیے کہ آپ کا فرمان ہے:’لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ فِي الإِْسْلَامِ‘ ’’اسلام میں نقصان کرنا یا کرانا درست نہیں ہے۔‘‘[2] تنبیہ:وادی کا پانی بہہ کر آ جائے تو پہلے اوپر والا فائدہ حاصل کرے،پھر اس کے بعد والا۔کھیتوں کے اختتام تک اسی پر عمل کیا جائے،ا لّا یہ کہ پانی پہلے ختم ہو جائے۔ اگر سیلاب کے پہلے ریلے کے قریب قریب کھیت ہیں تو کھیتوں کے بڑے چھوٹے کے حساب سے پانی تقسیم کر لیا جائے۔اگر اس طرح سمجھوتہ نہ ہو سکے تو قرعہ اندازی کر لی جائے،اس لیے کہ امام ابن ما جہ رحمہ اللہ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے: ((أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَضٰی فِي شُرْبِ النَّخْلِ مِنَ السَّیْلِ أَنَّ الْأَعْلٰی فَالْأَعْلٰی یَشْرَبُ قَبْلَ الْأَسْفَلِ،وَیُتْرَکُ الْمَائُ إِلَی الْکَعْبَیْنِ،ثُمَّ یُرْسَلُ الْمَائُ إِلَی الْأَسْفَلِ الَّذِي یَلِیہِ،وَکَذٰلِکَ حَتّٰی تَنْقَضِيَ الْحَوَائِطُ أَوْ یَفْنَی الْمَائُ)) ’’نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیلاب کے پانی سے کھجوروں کی سیرابی کے بارے میں فیصلہ کیا کہ اوپر والا نیچے والے سے پہلے پانی پلائے اور ٹخنوں تک پانی بھرے،پھر نیچے کی طرف پانی چھوڑ دے،یہاں تک کہ باغ مکمل(سیراب)ہو جائیں یا پانی ختم ہو جائے۔‘‘[3]
[1] [حسن ] سنن أبي داود، الخراج،باب في إقطاع الأرضین، حدیث: 3071، وحسنہ الحافظ في الإصابۃ: 220/1، یہ حدیث حسن ہے۔ [2] [ضعیف] سنن ابن ماجہ، الأحکام،باب من بنی في حقہ ما یضر بجارہ، حدیث: 2341,2340،والمعجم الأوسط للطبراني: 55/4، حدیث: 5193۔ یہ روایت اپنے تمام شواہد کے ساتھ مل کر بھی ضعیف ہے جبکہ شیخ البانی وغیرہ کی تحقیق کے مطابق حدیث صحیح ہے۔ [3] [ضعیف] سنن ابن ماجہ، الرھون، باب الشرب من الأودیۃ:، حدیث: 2483، اس کی سند ضعیف ہے۔ لیکن صحیح بخاری والی روایت میں یہی معنی بیان کیے گئے ہیں ۔