کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 542
لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’لَا یُبَاعُ فَضْلُ الْمَائِ لِیُبَاعَ بِہِ الْکَلَأُ‘ ’’زائد پانی کو فروخت نہ کیا جائے تاکہ اس کے ذریعے سے(آس پاس کی)گھاس فروخت کی جائے۔‘‘[1] اور فرمایا:’لَا یُمْنَعُ فَضْلُ الْمَائِ لِیُمْنَعَ بِہِ الْکَلَأُ‘ ’’ضرورت سے زائد پانی کو نہ روکا جائے تا کہ اس کے ذریعے(جانوروں کا)چارہ روکا جائے۔‘‘[2] ٭ ضرورت سے زائد پانی کے احکام: 1: ضرورت سے زائد پانی کسی دوسرے کو دینا اسی وقت متعین ہو گا جب پانی کا مالک اس سے مستغنی ہو،یعنی اس کی ضرورت سے زائد ہو۔ 2: اور جسے دیا جا رہا ہے وہ ضرورت مند ہے۔ 3: اور اس کے مالک کو کسی بھی انداز میں نقصان نہیں ہو رہا۔ زمین کی الاٹمنٹ: زمین کی الاٹمنٹ کا مطلب یہ ہے کہ غیر مملوکہ زمین میں سے حاکم وقت کسی کو کھیت کاشت کرنے یا باغ لگانے یا عمارت بنانے یا آمدنی حاصل کرنے یا اسے اس کا مالک بنا کر قطعۂ زمین دے۔ زمین کی الاٹمنٹ کا حکم: کسی کو رقبہ الاٹ کرنا صرف بادشاہ وقت کا کام ہے۔اس لیے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اسی طرح ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے آپ کے بعد جاگیر کے طور پر رقبے دیے تھے۔ ٭ زمین کی الاٹمنٹ کے احکام: 1: امام کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں دے سکتا،اس لیے کہ یہ املاک عامہ ہیں،لہٰذا اس کے علاوہ دوسرا کوئی بھی تصرف نہیں کر سکتا۔ 2: اور اتنا رقبہ دینا چاہیے جتنا وہ آباد کر سکے اور تعمیر کر سکے۔ 3: امام نے کسی کو آباد کاری کے لیے رقبہ دیا مگر وہ اسے آباد نہیں کر سکا تو مصلحت عامہ کے مفاد میں امام اسے واپس لے لے۔
[1] صحیح مسلم، المساقاۃ، باب تحریم بیع فضل الماء الذي یکون:، حدیث: 1566۔ [2] صحیح البخاري، المساقاۃ، باب من قال: إن صاحب الماء أحق:، حدیث: 2353، و صحیح مسلم، المساقاۃ،باب تحریم بیع فضل الماء الذيیکون:، حدیث: 1566۔مثلاً: ایک آدمی کا کسی جنگل وغیرہ میں کنواں ہو جس کا پانی اس کی ضرورت سے زائد ہے اور اس کے ارد گرد کافی گھاس اگی ہوئی ہے جہاں لوگوں کے مویشی چرتے اور اس کے کنویں سے سیراب ہوتے ہیں مگر وہ گھاس اپنے لیے مخصوص کرنا چاہتا ہے جس کا طریقہ اس نے یہ نکالا کہ چرواہوں سے پانی کی قیمت وصول کرنا شروع کر دی تا کہ چرواہے خود ہی اپنے مویشی کہیں اور لے جا کر چرائیں ، ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ بالواسطہ طور پر گھاس فروخت کرنے کا ایک حیلہ ہے، حالانکہ گھاس کنویں کے مالک کی نہیں ہے۔ (محمد عبدالجبار)