کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 532
٭ کفالت کے احکام: 1: کفالت میں ’’مکفول‘‘(جس کی کفالت کی جائے)کی پہچان ضروری ہے،بالخصوص عدالت میں حاضر کرنے کی کفالت میں۔ 2: کفالت میں ’’کفیل‘‘کی رضا ضروری ہے۔ 3: مالی کفالت میں اگر ’’مکفول‘‘فوت ہو جائے تو کفیل مال کا ضامن ہے اور اگر کسی کو حاضر کرنے کی کفالت میں ’’مکفول‘‘مر جائے تو کفیل پر کچھ نہیں ہے۔ 4: کفیل،مکفول کو عدالت میں قاضی کے پاس پیش کر دے تو کفیل کی ذمہ داری ختم ہو جائے گی۔ 5: کفالت ان حقوق میں ہی ہوتی ہے جو کسی کے ذمے ہوں اور ان میں شرعًا نیابت جائز ہو،مثلاً:مالی امور وغیرہ اور جن امور میں ایک انسان دوسرے کا نائب نہیں بن سکتا،جیسے:حدود و قصاص وغیرہ تو ان میں ’’کفالت‘‘ بھی نہیں ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’لَا کَفَالَۃَ فِي حَدٍّ‘ ’’حدود میں کفالت نہیں ہے۔‘‘[1] ٭ رہن کی تعریف: مقروض قرض کے تحفظ کے لیے کوئی چیز قرض دینے والے کے پاس رکھتا ہے تاکہ وہ عدم ادائیگی کی صورت میں یہ چیز یا اس کی قیمت سے قرض منہا کر لے(کاٹ کر وصول کر لے)،مثلاً:ایک شخص نے کسی سے قرض طلب کیا،قرض دینے والا مطالبہ کرتا ہے کہ قرض کے تحفظ(دوسرے لفظوں میں میری تسلی)کے لیے تو میرے پاس(اپنی کوئی چیز)جانور یا زمین وغیرہ گروی رکھ،جب ’’ادائیگی ٔ قرض‘‘ کا وقت آئے گا اور مقروض قرض ادا کر سکے گا تو قرض دینے والا(یا تو قرض وصول کر کے گروی چیز مقروض کو واپس کر دے گا یا اسی)گروی چیز میں سے اپنا قرض وصول کرلے گا۔اس معاملے میں قرض دینے والے کو ’’مرتہن‘‘،مقروض کو ’’راہن‘‘اور گروی رکھی ہوئی چیز کو ’’رہن‘‘یا ’’مرہون‘‘کہتے ہیں۔ ٭ رہن کا حکم: قرض میں کوئی بھی چیز گروی رکھنا جائز ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ﴾ ’’اگر تم سفر میں ہو اور(قرضے کی دستاویز)لکھنے والا نہ پاؤ تو گروی چیز قبضہ میں کر لی جائے۔‘‘[2] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:((لَا یُغْلَقُ الرَّھْنُ(مِنْ صَاحِبِہِ الَّذِي رَھَنَہُ)لَہُ غُنْمُہُ وَعَلَیْہِ غُرْمُہُ)) ’’رہن اس کے مالک ’’راہن‘‘سے نہ روکی جائے۔اس کی بڑھوتری اس کی ہے اور اسی پر اس کا تاوان ہے۔[3]
[1] [ضعیف و منکر] السنن الکبرٰی للبیہقي: 77/6 من طریق ابن عدي۔ [2] البقرۃ 283:2، اس آیت میں دلیل ہے کہ گروی رکھنا جائز ہے سفر ہو یا حضر۔اور سفر کی قید واقعی اور غالبی ہے کیونکہ سفر میں یہ صورت زیادہ پیش آسکتی ہے کہ کوئی گواہ اور کاتب نہ ملے لہٰذا یہ قید احترازی نہیں ۔ (مؤلف) [3] [حسن لغیرہ] کتاب الأم للشافعي: 60/4 مرسلا، وسنن الدارقطني: 33,32/3، وسنن ابن ماجہ، الرھون، باب لا یغلق الرھن، حدیث : 2441۔ والزیادۃ من الشافعي یہ روایت حسن لغیرہ ہے۔