کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 530
2: اگر قرض ایک شخص کے حوالے ہو گیا ہے،بعدازاں پتہ چلا کہ وہ مفلس ہے یا مر چکا ہے یا بہت دور چلا گیا ہے تو قرض خواہ اپنا حق حوالہ کرنے والے(پہلے مقروض)سے طلب کر سکتا ہے۔ 3: اگر ایک شخص نے اپنا قرض کسی کے حوالے کر دیا اور اس نے پھر آگے کسی اور کے حوالے کر دیا تو جائز ہے،اس لیے کہ اگر شرطیں پوری کر لی گئی ہیں تو ’’تکرارِ حوالہ‘‘میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ضمانت،کفالت،رہن،وکالت اور صلح کا بیان: ٭ ضمانت کی تعریف: کسی دوسرے پر ثابت شدہ حق کی ذمہ داری قبول کرنا،مثلاً:ایک شخص کا کسی پر حق ہے،اس نے مطالبہ کیا تو ایک اور شخص جو بااختیار ہے،کہتا ہے یہ میرے ذمے ہے،میں تجھے دے دوں گا۔اس لفظ سے وہ ’’ضامن‘‘ ہوگا۔صاحب حق اس سے اپنے حق کا مطالبہ کر سکتا ہے اور اگر یہ نہ دے تو پھر اصل مقروض سے بھی مطالبہ کر سکتا ہے۔ ٭ ضمانت کا حکم: اس طرح کی ذمہ داری لینا جائز ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ﴾ ’’اور جو اس(پیالے)کو لائے گا اس کے لیے(حکومت کی طرف سے)ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ ہے اور میں اس کا ضامن ہوں۔‘‘[1] جب کوئی مقروض شخص فوت ہو جاتا اور قرض کی ادائیگی کے لیے اس کے متروکہ مال میں کچھ نہ ہوتا،آپ اس کا جنازہ پڑھنے سے رک جاتے اور فرماتے:’صَلُّوا عَلٰی صَاحِبِکُمْ‘ ’’اپنے ساتھی پر جنازہ پڑھو۔‘‘ لیکن اس کے بعد جب آپ پر فراخی ہوگئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت شدہ شخص کا قرض اپنے ذمے لے کر اس کی نماز جنازہ پڑھاتے تھے۔[2] ٭ ضمانت کے احکام: 1: ’’ضمانت‘‘میں ضامن کا راضی ہونا معتبر ہے’’مضمون‘‘(جس شخص کی ضمانت دی جارہی ہے)کی رضا کی ضرورت نہیں ہے۔ 2: جس کی ذمہ داری دی جاری ہے وہ اس وقت بری قرار پائے گا،جب ضامن ذمہ داری پوری کرے گا اور ’’جس کی ذمہ داری دی جارہی ہے‘‘اگر بری ہو گیا تو ضامن بھی ضمانت سے بری ہو جائے گا۔ 3: ’’ضمانت‘‘میں ’’مضمون‘‘(جس کی ضمانت دی جارہی ہے)کی معرفت ضروری نہیں ہے۔بلکہ ضامن جس کو بالکل ہی نہیں جانتا ہے اس کی ضمانت بھی دے سکتا ہے،۔اس لیے کہ ’’ضمان‘‘نیکی اور احسان کا کام ہے۔ 4: ’’ضمانت‘‘اسی حق میں دی جا سکتی ہے جو کسی کے ذمہ ثابت شدہ ہو یا آئندہ ثابت ہونے والا ہو،جیسا کہ
[1] یوسف 72:12۔ [2] صحیح البخاري، الکفالۃ،باب الدین، حدیث: 2298۔