کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 516
ہمسایہ کے لیے ’’شفعہ‘‘نہیں ہوتا۔٭ 3: اگر ایک شریک اپنا حصہ کسی تیسرے آدمی کو فروخت کرتا ہے اور اس کا دوسرا شریک اس معاہدئہ بیع میں حاضر ہے یا اسے بیع کا علم ہے اور وہ شفعہ کا مطالبہ نہیں کرتابلکہ چھوڑ دیتا ہے تو اس کا ’’حق شفعہ‘‘ساقط ہو جاتا ہے۔ ہاں،صاحب حق اگر غائب ہے تو آنے کے بعد شفعہ کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ 4: اگر ’’مشتری‘‘نے ایک حصے دار سے اس کا حصہ خرید کر اسے وقف یا ہبہ یا خیرات کر دیا ہے تو’ ’شفعہ‘‘ساقط ہو جائے گا،اس لیے کہ ’’شفعہ‘‘بحال رہنے سے نیکی کے یہ کام باطل ہو جائیں گے اور نیکی کے کام کو بحال رکھنا ’’شفعہ‘‘کو بحال کرنے سے بہتر ہے جس میں محض ایک موہوم نقصان کا ازالہ مطلوب ہوتا ہے۔ 5: خرید کردہ چیز کی بڑھوتری اگر اس سے علیحدہ ہے تو بڑھوتری’ ’مشتری‘‘لے گا۔اگر سفید رقبہ پر عمارت بنا لی یا باغ لگا لیا تو قیمت ادا کر کے اسے ’’شفیع‘‘لے سکتا ہے لیکن اگر رقبہ سے اسے صاف کرنا چاہتا ہے تو نقصان کی ذمہ داری اسی شفیع پر ہے،اس لیے کہ نہ اس کا نقصان ہو اور نہ یہ نقصان دے۔٭ 6: ’’شفیع‘‘کے لیے ذمہ داری ’’مشتری‘‘پر ہے،اور مشتری کے لیے ضامن ’’بائع‘‘ہے٭ اگر اس چیز میں کسی طرح کا کوئی معاملہ ہے تو مذکورہ طریق سے اس کا حل ہو گا۔ 7: ’’حق شفعہ‘‘نہ بیچا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہبہ کیا جا سکتا ہے۔٭ لہٰذا جس کے لیے ’’حق شفعہ‘‘ثابت ہے،وہ اسے بیچ سکتا ہے اور نہ ہبہ کر سکتا ہے،اس لیے کہ اس کی ’’بیع یا ہبہ‘‘ اس غرض کے منافی ہے جس کی وجہ سے یہ مشروع ہے،یعنی ٭ اگر مشترکہ جائیداد ہو اور ایک حصہ دار اپنا حصہ اپنے شریک کے بجائے کسی تیسرے آدمی کو فروخت کر دے تو اس میں اس کے شریک کو دو نقصان ہوتے ہیں:1. اسے اپنے پڑوس میں مزید جائیداد کی ضرورت تھی اور وہ قوت خرید بھی رکھتا تھا مگر وہ جائیداد کسی اور کو فروخت کردی گئی اب یہ بے چارہ کہیں دور سے ضرورت کی باقی جائیداد خریدے گا۔2.نیا خریدار اگر پسندیدہ آدمی نہ ہوا تو اسے برا ساتھی بھی برداشت کرنا پڑے گا۔واللہ اعلم(محمد سلیم کیلانی) ٭ اگر کسی شخص نے ایک حصہ دار سے اس کے حصے کی زمین خرید لی اور اس میں کوئی چیز کاشت کر لی،باغ لگا لیا یا کوئی عمارت بنا لی بعد میں ایک شخص آ کر شفعہ کا دعوی کر دیتا ہے تو اس کا دعویٰ صرف زمین کے متعلق ہو گا،اس کی پیداوار یا عمارت کے متعلق نہیں کیونکہ یہ مشتری کی محنت ہے اور اس پر اسی کا حق ہے اگر شفعہ کا دعویدار اس کی قیمت مشتری کو دے دے تو وہ یہ بڑھوتری لے سکتا ہے اور اگر بنی بنائی عمارت کو گرانا چاہتا ہے تو بھی نقصان حق شفعہ والا برداشت کرے گا۔واللہ اعلم(محمد سلیم کیلانی) ٭ اگر شفعہ کرنے والے حصہ دار کو کوئی اعتراض ہے تو وہ مشتری کے پاس جائے گا اور مشتری بائع(پہلے حصہ دار)کی طرف،واللہ اعلم۔(ع،ر) ٭ مثلاً:جائیداد میں امجد اور اکرم دونوں شریک ہیں امجد،اکرم کو بتائے بغیر اپنا حصہ فروخت کر دیتا ہے اور اکرم خود شفعہ کا دعویٰ کرنے کے بجائے اپنا حقِ شفعہ جاوید کو بیچتا یا ہبہ کر دیتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ تم شفعہ کا دعوی کر دو۔واللہ اعلم۔(ع،ر)