کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 514
3: وقتِ ادائیگی معلوم ہو اور واضح طور پر اس کا تعین کر دیا جائے،مثلاً:ایک ماہ یا دو ماہ۔٭ 4: قیمت اسی مجلس میں ’ ’بائع‘‘ وصول کر لے تاکہ ادھار کی بیع ادھار کے ساتھ نہ ہو جائے جو کہ شرعاً ممنوع ہے۔ ان شرطوں کی دلیل یہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’مَنْ أَسْلَفَ فِي تَمْرٍ فَلْیُسْلِفْ فِي کَیْلٍ مَّعْلُومٍ وَّوَزْنٍ مَّعْلُومٍ إِلٰی أَجَلٍ مَّعْلُومٍ‘ ’’جو شخص کھجوروں میں بیع سلم(کر کے رقم پیشگی ادا)کرتاہے تو وہ معین ناپ اور مقررہ وزن میں ایک معین وقت تک کے لیے ایسا کرے۔‘‘[1] ٭ بیع سلم کے احکام: 1 :میعادِ ادائیگی اتنی ہو کہ اس مدت میں قیمت کا اتار چڑھاؤ ہو سکتا ہو،مثلاً:ایک ماہ یا دو ماہ،اس لیے کہ دو چار دن کی مدت کا حکم عام ’’بیع‘‘والا ہے جبکہ اس عام’ ’بیع‘‘میں یہ شرط ہے کہ مبیع کو اچھی طرح دیکھ لے اور اس کی معرفت حاصل کر لے(بیع سلم میں مبیع کو نہیں دیکھا جاتا،اس کے اوصاف ذکر کیے جاتے ہیں۔) 2: وقتِ ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت مطلوبہ جنس کا پایا جانا ممکن ہو،لہٰذا بہار کے موسم کو تازہ کھجور کی ادائیگی کا وقت یا سردیوں میں انگور کی ادائیگی کا وقت مقرر نہ کیا جائے،اس لیے کہ اس صورت میں مسلمانوں میں اختلاف واقع ہو گا۔ 3: اگر ’’معاہدئہ بیع‘‘میں ادائیگی کی جگہ کا تعین نہیں کیا گیا تو ’’مقام معاہدہ‘‘ہی ادائیگی کی جگہ طے پائے گا،اگر جگہ کا تعین کیا گیا ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا اور اس بارے میں جس جگہ ادائیگی پر دونوں متفق ہوں،اس کے مطابق عمل کیا جائے،اس لیے کہ مسلمان معاملات میں جو شرطیں طے کر لیں ان کی پابندی ضروری ہے۔ ٭ عام بیع کا تحریری نمونہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد لکھے:’فلاں نے اپنے لیے فلاں سے بقائمیٔ صحت اور ہوش و حواس اپنے اختیار سے ایک مکان جو فلاں شہر یا فلاں بستی میں واقع ہے اس کا رقبہ،عمارت اوپر نیچے سمیت خریدا ہے،مکان اس پوزیشن میں ہے جو مشاہدہ کے مطابق ہے اور مکان کے بارے میں صفات مذکورہ پر دونوں کا اتفاق ہے۔جس کے مشرق میں مکان مملوکہ فلاں ہے اور مغرب و شمال اور جنوب میں فلاں فلاں چیزیں ہیں۔ مکان کے اندر جو چیزیں ہیں،مثلاً:دروازے،چوکھٹیں،لکڑیاں،اینٹیں،وغیرہ،سب اس ’’بیع‘‘میں داخل ہیں۔مکان کی جملہ منفعتیں،راستے،اوپر نیچے کے حصے اور اندرون و بیرون منافع شرعی طریقہ سے فروخت ہو رہے ہیں،جن میں ٭ بیع سلم کے سودے میں چار چیزوں کا تعین ضروری ہے جنس،قیمت،مقدار اور مدت اور اس کی یہ بھی شرط ہے کہ مشتری جب تک بائع سے مطلوبہ جنس خود وصول نہ کر لے یہ سودا کسی دوسرے خریدار کی طرف منتقل نہیں کر سکتا۔(عبدالرحمن کیلانی)
[1] صحیح البخاري، السلم، باب السلم في وزن معلوم، حدیث: 2240، وصحیح مسلم، المساقاۃ، باب السلم،حدیث: 1604۔