کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 505
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ،مزابنہ،مخابرہ اور استثنا سے منع کیا ہے،ا لّا یہ کہ معلوم ہو۔‘‘[1] پھل دار درختوں کی بیع: ایک شخص کھجور یا کوئی اور درخت فروخت کرے اور کھجور کی تابیر٭ ہو چکی ہے اور درخت کا پھل ظاہر بھی ہو گیا ہے تو اس سال کا پھل ’’بائع‘‘کے لیے ہے،الّا یہ کہ ’’مشتری‘‘بیع میں شرط لگا لے کہ پھل وہی لے گا اور اگر ’’تابیر‘‘ نہیں ہوئی اور پھل بھی ظاہر نہیں ہوا تو پھل ’’مشتری‘‘کا ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’مَنْ بَاعَ نَخْلًا قَدْ أُبِّرَتْ فَثَمَرَتُھَا لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ یَّشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ‘ ’’جو شخص کھجور کا درخت فروخت کرتا ہے اور اس کی تابیر ہو چکی ہے تو پھل ’’بائع‘‘کا ہے،الّا یہ کہ ’’مشتری‘‘ شرط کرے۔‘‘[2] سودی کاروبار اور تبادلۂ نقدیات کا بیان: ٭ تعریف سود: چند مخصوص اموال میں زیادتی کا نام سود ہے،اس کی دو انواع ہیں۔ایک ’’سود زیادت‘‘ دوسرا’’سودِ ادھار‘‘سود زیادت:اصول ربویات ٭ میں سے ایک جنس کا تبادلہ اسی جنس کے ساتھ کمی بیشی میں کرنا،مثلاً:ایک من گندم کی بیع سوا من گندم کے ساتھ یا ایک صاع کھجور کی بیع ڈیڑھ صاع کھجور کے ساتھ یا ایک اوقیہ چاندی کی بیع ایک اوقیہ اور ایک درہم چاندی کے ساتھ وغیرہ(اس سود کو ربا الفضل کہا جاتا ہے۔) سود ادھار:اس کی دو قسمیں ہیں جاہلی دور کا سود جس کی تحریم درج ذیل آیت مبارکہ میں نازل ہوئی ہے:﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً﴾ ’’اے ایمان والو!کئی گنا کر کے سود نہ کھاؤ۔‘‘[3] جس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ ایک شخص میعادی ادھار لے لیتا تھا،جب ادائیگی کی میعاد ختم ہو جاتی تو قرض خواہ مقروض سے کہتا کہ رقم ادا کرو ورنہ مزید میعاد کے عوض رقم میں اضافہ کرتا ہوں۔اگر مقروض اس وقت بھی ادا نہ کرتا تو ایک مدت کے لیے مزید مہلت دے کر مال اس پر بڑھا دیتا اور اسی طرح کرتا رہتا،یہاں تک کہ کچھ مدت بعد وہ رقم کئی گنا اس پر قرض قرار پاتی۔ جاہلی دور کے سود میں ایک صورت یہ بھی تھی کہ کوئی شخص ایک مدت کے لیے دس دینار دیتا اور کہتا میں پندرہ دینار ٭ نر کھجورکا بور مادہ کے سیپ میں ڈالنا تابیر کہلاتا ہے۔(الاثری)٭ اصول ربویات چھ ہیں:سونا،چاندی،گندم،جو،کھجور اور نمک۔تفصیل آگے آرہی ہے۔(الاثری)یعنی یہ چھ سودی اجناس ہیں،ان کے علاوہ ہر اس جنس پر بھی سود کے احکام نافذ ہوں گے جو 1.خوراک کا کام دیتی ہو۔2.ماپی یا وزن کی جا سکتی ہو۔3. یا نقدین(سونا چاندی)کے حکم میں ہو۔واللہ اعلم دیکھیے:تعلیق الألباني علی الروضۃ:394/2،والاختیارات لابن تیمیۃ رحمہ اللہ(ع،و)
[1] [صحیح] جامع الترمذي، البیوع، باب ما جاء في النھي عن الثنیا، حدیث: 1290، وسنن أبي داود، البیوع، باب في المخابرۃ، حدیث: 3405,3404، وسنن النسائي، البیوع، باب النھي عن بیع الثنیا حتی تعلم، حدیث: 4637۔ [2] صحیح البخاري، البیوع،باب من باع نخلا قدأبرت:، حدیث: 2204۔ [3] اٰل عمرٰن 130:3۔