کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 491
’ ’سبق‘‘اس شرط کردہ انعام کو کہتے ہیں جو مقابلے میں حصہ لینے والے ایک دوسرے کے لیے طے کرتے ہیں اور پھر ان میں سے فائز اور کامیاب کو دیا جاتا ہے۔ مذکورہ مشقوں کے علاوہ کُشتی،تیراکی،دوڑ،سائیکل دوڑ،گاڑی دوڑ اور بوجھ اٹھانے کا مقابلہ اسی طرح خچروں اور گدھوں کا دوڑانا یا سمندری کشتیوں کے مقابلے اور اسی طرح علمی مسائل کے حل اوراظہار معلومات کے مقابلے،یہ سب اگرچہ جائز مقابلے ہیں مگر ان میں شرط لگانا اور جیتنے والے کا اسے وصول کرنا،صحیح قول کے مطابق درست نہیں ہے۔[1] اس بات کے جواز میں رکانہ بن زید رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انعام دینا،جب آپ نے اس کو مقابلۂ کشتی میں پچھاڑ دیا تھا،بطور دلیل پیش کرنا صحیح نہیں ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ انعام اسے واپس کر دیا تھا۔اسی طرح رومیوں کے غالب آنے کی پیش گوئی کے مقابلے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قریش سے انعام وصول کرنے کو بھی اس کا جواز نہیں بنایا جا سکتا،اس لیے کہ یہ واقعہ ابتدائے اسلام کا ہے،جبکہ ابھی تشریعی احکام کا نزول نہیں ہوا تھا۔حدیث میں مذکورہ بالا تین مقابلوں میں انعام مقرر کرنے اور وصول کرنے کے جواز میں حکمت یہ ہے کہ ان تینوں امور کا تعلق جہاد سے ہے لیکن ان کے علاوہ ریاضات(ورزشوں)کا تعلق جہاد سے نہیں ہے،اس لیے کہ جہاد میں گھوڑے،اونٹ اور تیراندازی پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ہاں اس دور کے ٹینک اور ہوائی جہاز کو اگر اونٹ اور گھوڑے پر قیاس کر لیا جائے تو ان کے مقابلے بھی درست ہیں اور انعام لینا بھی جائز ہے،اس لیے کہ اس دور میں ان کا جہادی مہمات میں بہت بڑا کردار ہے،جو بدنی ریاضت میں اصل مقصود ہے۔ ان کے علاوہ دیگر مقابلوں میں شارع اگر انعام لینے کی اجازت دے دے تو پھر بعض لوگ ان مقابلوں کو ہی ذریعہ معاش بنا لیں گے اور یہ روزی کمانے کا ایک واسطہ بن کر رہ جائیں گے۔ اس طرح ایک اچھی غرض جس کے لیے یہ مقابلے مشروع تھے،یعنی جہادی قوت و استعداد حاصل کرنا ختم ہو کر رہ جائے گی،حالانکہ ان سے اصل مقصد ایک اللہ کی عبادت اور اس کی شریعت پر قائم رہنا ہے تاکہ لوگ دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کر سکیں اور بدبختی و شقاوت سے بچیں۔ دوڑ اور تیز اندازی کے مقابلوں میں انعام لگانا: جہادی مقابلوں میں بہتر یہ ہے کہ خود حکومت انعام مقرر کرے یا کوئی خیراتی ادارہ یا نیکی کا شوق رکھنے والے مقابلے سے باہر کے بعض افراد۔اس طرح اس میں کسی انداز(مثلاً:جوئے وغیرہ)کا شبہ باقی نہیں رہے گا اور اس میں مدنظر محض جرأت و بہادری کا اظہار ہو گا جو جہادی تیاری کے لیے ہی ہو گی۔ہاں،اگر مقابلہ کرنے والوں میں سے کوئی ایک فرد یا فریق انعام کی شرط صرف اپنی طرف سے لگا دے اور دوسرے کی
[1] اس لیے کہ یہ قِمار (جوئے)کے زمرے میں شامل ہیں جبکہ مذکورہ تین چیزوں کا جواز حدیث سے ثابت ہے۔ (ع، و)