کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 487
((إِنِّي لَا أَخِیسُ بِالْعَھْدِ وَلَا أَحْبِسُ الْبُرُدَ))’’بلاشبہ میں معاہدہ نہیں توڑتا اور قاصدوں کو قید نہیں کرتا۔‘‘[1] ٭ صلح: مسلمان حکمران اگر مناسب سمجھے تو اپنے دشمنوں کے ساتھ صلح کر سکتے ہیں،جبکہ صلح کے ساتھ ان کے ایسے مفاد وابستہ ہوں جو صلح کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’حدیبیہ‘‘ میں اہل مکہ کے ساتھ صلح کی تھی[2] اور اہل نجران کے ساتھ اموال کی ادائیگی پر صلح ہوئی [3] اسی طرح اہل بحرین نے متعین جزیہ دے کر صلح کی تھی[4] اور اسی طرح اکیدردومہ نے بھی صلح کی تھی اور آپ نے اس کا خون معاف کر دیا تھا۔[5] غنائم،فے،خراج،جزیہ اور نفل کی تقسیم ٭ غنائم کی تقسیم: ’’غنیمت‘‘اس مال کو کہتے ہیں جس پر مسلمانوں نے کفار سے لڑائی کرتے ہوئے بزور قبضہ کیا ہو۔اس کا حکم یہ ہے کہ اس میں سے پانچواں حصہ امام کو دیا جائے،وہ مسلمانوں کی اصلاح کے کاموں پر اسے خرچ کرے گا اور باقی چار حصے ان فوجیوں پر تقسیم کر دیے جائیں جو جنگ میں شریک ہوئے تھے،چاہے ان میں سے بعض نے بالفعل لڑائی کی ہو یا نہیں،جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے۔’اَلْغَنِیمَۃُ لِمَنْ شَھِدَ الْوَقْعَۃَ‘ ’’غنیمت اس شخص کے لیے ہے جو جنگ میں حاضر ہوا۔‘‘[6] نیز ان میں سے گھوڑ سوار کو تین حصے اور پیدل کو ایک حصہ دیا جائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللّٰهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ﴾ ’’اور جان لو کہ جو چیز تم نے غنیمت میں حاصل کی ہے،اس میں سے پانچواں حصہ اللہ،(اس کے)رسول،(آپ کے)رشتہ داروں،یتیموں،مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور اس پر جو ہم نے اپنے بندے پر فرقان کے دن اتارا تھا۔‘‘[7] تنبیہ:جنگ کے لیے لشکر کے نکلنے کے بعد لشکر میں سے کسی دستے نے کوئی مہم سر کی ہے اور کوئی غنیمت حاصل کی ہے تو پوری فوج اس میں حصہ دار ہو گی۔وہ مال غنیمت صرف اسی فوجی دستے میں تقسیم نہیں ہو گاجو اسے لائے تھے۔ ٭مال فے: ’’فے‘‘ سے کفار کے وہ اموال مراد ہیں جو لڑائی کے بغیر ہی کفار سے حاصل کیے جائیں اور مسلمانوں کے ہاتھ لگیں۔اس کا حکم یہ ہے کہ مسلمانوں کا امام اس میں کسی خاص یا عام مصلحت کے تحت جہاں چاہے خرچ کر سکتا
[1] [صحیح] سنن أبي داود، الجھاد، باب في الإمام یستجن بہ في العھود،حدیث: 2758، والسنن الکبرٰی للنسائي: 205/5، حدیث: 8674، وموارد الظمآن : 221,220/5۔ [2] صحیح البخاري، الصلح، باب الصلح مع المشرکین، حدیث: 2700۔ [3] زاد المعاد: 634/3۔ [4] صحیح البخاري، الجزیۃ والموادعۃ، باب الجزیۃ والموادعۃ مع أہل الذمۃ والحرب، حدیث: 3158۔ [5] الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 166/2۔ [6] صحیح البخاري، فرض الخمس، باب الغنیمۃ لمن شھدالوقعۃ، بعد الحدیث: 3124 اور اس سلسلے میں انھوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ایک فتوے کے عموم سے استدلال کیا ہے۔ [7] الأنفال 41:8۔