کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 484
’’اے اللہ!کتاب اتارنے والے،بادل جاری کرنے والے اور(دشمن)جماعتوں کو شکست دینے والے!ان کو شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔‘‘[1] نیز فرمایا: ((ثِنْتَانِ لَا تُرَدَّانِ أَوْقَلَّمَا تُرَدَّانِ:الدُّعَائُ عِنْدَ النِّدَائِ،وَعِنْدَ الْبَأْسِ حِینَ یُلْحِمُ بَعْضُھُمْ بَعْضًا)) ’’دو دعائیں رد نہیں ہوتیں،یا بہت کم رد ہوتی ہیں۔نماز کی اذان کے وقت اور لڑائی کے وقت جب وہ(مسلمان و کفار)ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہوتے ہیں۔‘‘[2] ذمیوں کے احکام: ٭ عقد ذمہ: کفار میں سے جو کوئی جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائے اور حدود،مثلًا:قتل،چوری اور پامالی ٔعزت میں اسلامی احکام کی پابندی قبول کر لے،اسے امان و تحفظ مہیا کرنا ’’عقد ذمہ‘‘ ہے۔ ٭ ذمیوں سے معاہدہ کرنے کا کون مجاز ہے؟: امام یا اس کا نائب،یعنی امیر لشکر ہی ’’عقد ذمہ‘‘کی منظوری دے سکتا ہے اور یہ معاملہ طے کر سکتا ہے،کوئی اور اس معاملے میں کوئی استحقاق نہیں رکھتا۔البتہ عام مسلمان مرد اور عورت کسی بھی کافر کو پناہ یا امان دے سکتے ہیں،جیسا کہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا نے فتح مکہ کے دن ایک مشرک کو پناہ دی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو برقرار رکھتے ہوئے فرمایا:’قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ یَا أُمَّ ھَانِیئٍ‘ ’’ام ہانی!جسے تو نے پناہ دی ہے،ہم اسے تحفظ دیتے ہیں۔‘‘[3] ٭ ذمیوں اور مسلمانوں میں تمیز: لباس وغیرہ میں مسلمانوں اور ذمیوں کے مابین امتیاز ضروری ہے تاکہ ان کی پہچان رہے اور ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے اور انھیں جگہ دینے کے لیے اٹھنا بھی نہیں چاہیے اور نہ ہی ان کے لیے سلام میں پہل کی جائے اور نہ ہی کسی مجلس میں صدر کے مقام پر انھیں بٹھایا جائے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لَا تَبْدَؤُوا الْیَھُودَ وَلَا النَّصَارٰی بِالسَّلَامِ،فَإِذَا لَقِیتُمْ أَحَدَھُمْ فِي طَرِیقٍ فَاضْطَرُّوہُ إِلٰی أَضْیَقِہِ)) ’’یہود و نصاریٰ کو سلام کہنے میں پہل نہ کرو،جب تم ان میں سے کسی ایک کو راستے میں ملو تو انھیں تنگ راستے کی طرف مجبور کر دو۔‘‘[4]
[1] صحیح البخاري، الجھاد والسیر، باب کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا لم یقاتل أول النھار أخر القتال حتی تزول الشمس، حدیث: 2966، وصحیح مسلم، الجھاد،باب کراہۃ تمني لقاء العدو:،حدیث: 1742۔ [2] [حسن] سنن أبي داود، الجھاد، باب الدعاء عند اللقاء، حدیث: 2540۔ امام ترمذی نے اسے حسن غریب کہا ہے۔ [3] صحیح البخاري، الصلاۃ، باب الصلاۃ في الثوب الواحد ملتحفًا بہ، حدیث: 357۔ [4] صحیح مسلم، السلام،باب النھي عن ابتداء أہل الکتاب بالسلام وکیف یرد علیہم؟ حدیث: 2167۔