کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 478
’’اور جہاں تک ہو سکے ان کے(مقابلے کے)لیے طاقت تیار کرو اور گھوڑے بھی تیار رکھو اس سے تم اللہ کے اور اپنے دشمن کو ڈرا سکو گے۔‘‘[1] عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر کہتے ہوئے سنا: ﴿وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ﴾((أَلَا!إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْيُ،أَلَا!إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْيُ،أَلَا!إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْيُ)) ’’اور ان کے لیے جو قوت مہیا کر سکتے ہو،تیار رکھو۔سنو!بے شک قوت تو رمی(پھینکنا)ہے،بے شک قوت تو رمی ہے،بے شک قوت تو رمی(پھینکنا)ہے۔‘‘ [2] اور فرمایا: ((إِنَّ اللّٰہَ لَیُدْخِلُ بِالسَّھْمِ الْوَاحِدِ الثَّلَاثَۃَ الْجَنَّۃَ:صَانِعَہُ یَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِہِ الْخَیْرَ،وَالرَّامِيَ بِہِ،وَالْمُمِدَّ بِہِ وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم:اِرْمُوا وَارْکَبُوا،وَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْکَبُوا،وَکُلُّ مَا یَلْھُو بِہِ الْمَرْئُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ،إِلَّا رَمْیَہُ بِقَوْسِہِ،وَتَأْدِیبَہُ فَرَسَہُ،وَمُلَاعَبَتَہُ امْرَأَتَہُ،فَإِنَّھُنَّ مِنَ الْحَقِّ)) ’’بے شک اللہ ایک تیر کی وجہ سے تین انسانوں کو جنت میں داخل کرے گا۔ثواب کے حصول کے لیے اسے بنانے والا،اسے پھینکنے والا اور پھینکنے کے لیے دینے والا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تیر اندازی اور سواری سیکھو اور سواری سیکھنے سے تیر اندازی مجھے زیادہ پسند ہے۔مسلمان آدمی کا ہر کھیل بے فائدہ ہے لیکن تین کھیل بے فائدہ شمار نہیں ہوتے۔اپنی کمان میں مہارت حاصل کرنا،اپنے گھوڑے کو جنگی چالیں سکھانا،اپنی بیوی کے ساتھ خوش گپی کرنا کیونکہ یہ چیزیں حق ہیں۔‘‘[3] اس وجہ سے تمام مسلمانوں پر،خواہ وہ ایک حکومت قائم کر چکے ہوں،یا(بدقسمتی سے)مختلف حکومتوں کی صورت میں رہ رہے ہوں،لازم ہے کہ ہتھیار تیار رکھیں اور جنگی سامان مہیا کریں اور مردوں کو حرب و قتال کی تربیت دیں،جس سے وہ نہ صرف دشمن کے حملے کو روک سکیں بلکہ اللہ کے دین کی عظمت اور زمین میں عدل و خیر اور امن و سلامتی کے لیے انھیں اللہ کے راستہ میں آگے بڑھ کر بھی حملہ کرنا پڑے تو کر سکیں۔ مسلمانوں پر یہ بھی لازم ہے کہ فوجی ٹریننگ کا جبری انتظام کریں۔جو نوجوان اٹھارہ سال کی عمر کا ہوجائے تو ڈیڑھ سال کے لیے لازمی عسکری خدمت کے لیے اسے طلب کر لیا جائے۔اس مدت میں وہ جنگ و قتال کے فنون کی تربیت
[1] الأنفال 60:8۔ [2] صحیح مسلم، الإمارۃ،باب فضل الرمي والحث علیہ وذم من علمہ ثم نسیہ،حدیث: 1917۔ ’’رمی‘‘ کا اصل معنی پھینکنا ہے اور اس میں وہ تمام جدید اسلحہ آ جاتا ہے جسے ہدف پر پھینکا جاتا ہے۔ (ع،ر) [3] [حسن ] سنن ابن ماجہ، الجہاد، باب الرمي في سبیل اللّٰہ، حدیث: 2811۔