کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 477
سے ساقط ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے دشمن کے مقابلہ میں اس کا حکم یوں دیا ہے۔ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ ’’اے ایمان والو!صبر کرو،ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرو اور(دشمن کے مقابلہ میں)جمے رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘[1] ٭ رباط کی فضیلت: دشمن اسلام کے مقابلہ میں ڈٹ جانا،افضل عمل اور اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: ((رِبَاطُ یَوْمٍ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا عَلَیْھَا))’’اللہ کے راستہ میں ایک دن کی نگہبانی کرنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔‘‘ [2] اور فرمایا: ((کُلُّ الْْمَیِّتِ یُخْتَمُ عَلٰی عَمَلِہِ إِلَّا الْمُرَابِطَ،فَإِنَّہُ یَنْمُو لَہُ عَمَلُہُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَیُؤَمَّنُ مِنْ فَتَّانِ الْقَبْرِ)) ’’ہر فوت شدہ کا عمل ختم ہو جاتا ہے،البتہ اسلامی سرحدوں کی نگرانی کرنے والے کا عمل قیامت تک بڑھتا رہے گا اور وہ قبر میں منکر نکیر کی آزمائش سے محفوظ رہے گا۔‘‘[3] نیز فرمایا:’حُرِّمَتِ النَّارُ عَلٰی عَیْنٍ سَھَرَتْ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ‘ ’’اس آنکھ پرجہنم کی آگ حرام کر دی گئی ہے،جو اللہ کے راستہ میں بیدار رہی۔‘‘[4] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انس بن ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہما کو ایک رات فوج کے پہرے کا حکم دیا،صبح ہونے پر وہ آئے تو آپ نے پوچھا:’’تو آج رات نیچے اترا ہے؟ ’’انس رضی اللہ عنہ نے عرض کی:میں نماز اور قضائے حاجت کے سوا نہیں اترا۔ تو فرمایا:’قَدْ أَوْجَبْتَ،فَلَا عَلَیْکَ أَنْ لَّا تَعْمَلَ بَعْدَھَا‘’’تو نے جنت واجب کر لی ہے،آج کے بعد تو کوئی بھی(نفل)عمل نہ کرے تو تجھ پر کوئی حرج نہیں۔‘‘[5] جہاد کے لیے تیاری کا وجوب: اسباب و آلات اور ہمہ قسم کے جنگی ہتھیار مہیا کرنا بھی جہاد کی طرح فرض ہے،اس لیے کہ اس کے بغیر جہاد نہیں ہو سکتا۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ﴾
[1] اٰل عمرٰن 200:3۔ [2] صحیح البخاري، الجھاد والسیر،باب فضل رباط یوم في سبیل اللّٰہ،حدیث: 2892۔ [3] [صحیح] سنن أبي داود، الجھاد، باب في فضل الرباط، حدیث: 2500، وجامع الترمذي، الجھاد، باب ماجاء في فضل من مات مرابطًا، حدیث: 1621، اسے ابن حبان،حاکم اور ذہبی رحمۃ اللہ علیہم نے صحیح کہا ہے۔ [4] [حسن] المعجم الأوسط للطبراني: 339,338/9، حدیث: 8736، والترغیب والترھیب: 251/2، ومسند أحمد: 135/4، وسنن النسائي، الجھاد، ثواب عین سہرت في سبیل اللّٰہ، حدیث: 3119، والمستدرک للحاکم: 83/2 وصححہ۔ [5] [حسن] سنن أبي داود، الجھاد،باب في فضل الحرس في سبیل اللّٰہ عزوجل، حدیث: 2501، اسے امام حاکم اور ذہبی نے صحیح اور حافظ ابن حجر نے حسن کہا ہے۔