کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 470
یہ بھی مستحب ہے کہ ساتویں دن بچے کا نام رکھا جائے اور اچھا سا نام تجویز کیا جائے۔اسی دن سرمونڈا جائے اور بالوں کے ہم وزن سونا یا چاندی خیرات کر دی جائے۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((کُلُّ غُلَامٍ رَّھِینَۃٌ بِعَقِیقَتِہِ تُذْبَحُ عَنْہُ یَوْمَ سَابِعِہِ،وَیُسَمّٰی وَیُحْلَقُ رَأْسُہُ)) ’’ہر لڑکا اپنے عقیقہ کے ساتھ رہن(گروی)ہے،ساتویں دن اس کی طرف سے(جانور)ذبح کیا جائے،اس کا نام رکھا جائے اور سر مونڈا جائے۔‘‘[1] 4: نومولود بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہنا علماء کے نزدیک مستحب ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے: ((أَذَّنَ فِي أُذُنِ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ۔حِینَ وَلَدَتْہُ فَاطِمَۃُ۔بِالصَّلَاۃِ)) ’’جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو جنم دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کان میں نماز والی اذان کہی۔‘‘[2] 5: اگر ساتواں دن گزر جائے اور جانور ذبح نہ ہو سکے تو چودہویں دن یا اکیسویں دن بھی ذبح کرنا درست ہے،[3] اگر بچہ سات دن سے پہلے فوت ہو جائے تو اس کی طرف سے عقیقہ نہ کیا جائے۔
[1] [صحیح] سنن أبي داود، الضحایا، باب في العقیقۃ، حدیث: 2838، وسنن النسائي، العقیقۃ، باب متٰی یعق، حدیث: 4225، و جامع الترمذي، الأضاحي، باب من العقیقۃ، حدیث: 1522 وقال حسن صحیح، وسنن ابن ماجہ، الذبائح، باب العقیقۃ، حدیث: 3165، اسے امام حاکم، ذہبی اور ابن جارود نے صحیح کہا ہے۔ [2] جامع الترمذي، الأضاحي، باب الأذان في أذن المولود، حدیث: 1514۔ امام ترمذی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔جبکہ بعض لوگ اسے ضعیف قرار دیتے ہیں ۔ [3] جامع الترمذي، الأضاحي، باب من العقیقۃ، تحت حدیث: 1522۔