کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 468
’’اللہ کے نام سے،اللہ سب سے بڑا ہے،اے اللہ!یہ تیری طرف سے ہے اور تیرے لیے ہے۔‘‘[1] 6: مستحب تو یہی ہے کہ ذبح خود کرے،اگر ذبح کرنے کے لیے دوسرے کو اپنا نائب بنا دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی اس بارے میں علماء میں کوئی اختلاف ہے۔ 7: قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ اسے تین حصوں میں تقسیم کر لیا جائے:ایک حصہ قربانی کرنے والے خود کھائیں اور ایک حصہ خیرات کر دیں اور باقی اپنے دوست احباب کے لیے تحفے کے طور پر بھیج دیں،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’فَکُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا‘ ’’کھاؤ،ذخیرہ بناؤ اور خیرات کرو۔‘‘[2] یہ بھی جائز ہے کہ سارا گوشت خیرات کر دیں اور اگر کسی کو تحفہ میں بھیجیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ 8: ذبح کرنے والے قصاب کی مزدوری قربانی کے گوشت میں سے دینی جائز نہیں ہے۔علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ((أَمَرَنِي رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَنْ أَقُومَ عَلٰی بُدْنِہِ،وَأَنْ أَتَصَدَّقَ بِلَحْمِھَا وَجُلُودِھَا وَأَجِلَّتِھَا وَأَنْ لَّا أُعْطِيَ الْجَزَّارَ مِنْھَا۔قَالَ:نَحْنُ نُعْطِیہِ مِنْ عِنْدِنَا)) ’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں آپ کے اونٹوں کی قربانی کی نگرانی کروں اور گوشت،چمڑے اور جھولیں خیرات کردوں اور قصاب کو ان میں سے کچھ نہ دوں اور فرمایا:ہم اسے اپنی طرف سے مزدوری دیں گے۔‘‘[3] 9: ایک بکری تمام گھر والوں کی طرف سے کفایت کرتی ہے،چاہے اس کنبہ میں بہت زیادہ افراد رہتے ہوں،اس لیے کہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: ((کَانَ الرَّجُلُ یُضَحِّي بِالشَّاۃِ عَنْہُ وَعَنْ أَھْلِ بَیْتِہِ))’’ایک آدمی اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا۔‘‘[4] 10: جو قربانی کرنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہو وہ ذو الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد قربانی کے ذبح ہونے تک بال اور ناخن نہ کٹوائے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((إذَا رَأَیْتُمْ ھِلَالَ ذِي الْحَجَّۃِ وَأَرَادَ أَحَدُکُمْ أَنْ یُّضَحِّيَ فَلْیُمْسِکْ عَنْ شَعْرِہِ وَأَظْفَارِہِ [حَتّٰی یُضَحِّيَ])) ’’جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو اپنے بال اور ناخن قربانی ذبح
[1] [صحیح] مسند أحمد: 375/3، وسنن أبي داود، الضحایا، باب مایستحب من الضحایا، حدیث: 2795۔ [2] صحیح مسلم، الأضاحي، باب بیان ما کان من النھي عن أکل لحوم الأضاحي:، حدیث: 1971۔ [3] صحیح البخاري، الحج، باب لایعطي الجزار من الھدي شیئًا، حدیث: 1716، وصحیح مسلم، الحج، باب في الصدقۃ بلحوم الھدایا:، حدیث : 1317 واللفظ لہ۔ [4] [صحیح] جامع الترمذي، الأضاحي، باب ما جاء أن الشاۃ الواحدۃ تجزیٔ عن أھل البیت، حدیث: 1505 وقال :حسن صحیح۔