کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 464
اہل بقیع کو سلام کہتے تھے۔[1] اور اس لیے بھی کہ اس میں ہزاروں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم،تابعین عظام اور اللہ کے نیک بندے رحمۃ اللہ علیہم مدفون ہیں۔وہاں جاکر انھیں بایں الفاظ سلام کہے: ((اَلسَّلَامُ عَلٰی أَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ،وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِینَ،وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَا حِقُونَ،أَسْأَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعافِیَۃَ)) ’’اے مومنین،مسلمین،اہل دیار!تم پر سلامتی ہو،ہم سے آگے جانے والوں اور پیچھے رہنے والوں پر اللہ رحم فرمائے،اور ہم(بھی)ان شاء اللہ تم سے آملیں گے۔میں اللہ سے اپنے اور تمھارے لیے عافیت کا سوال کرتا ہوں۔‘‘[2] باب:14 قربانی اور عقیقہ کے احکام و مسائل قربانی کے احکام ومسائل: ٭ قربانی کی تعریف: قربانی سے مراد وہ جانور ہے جو عید کے دن اور قربانی کے دیگر دنوں میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کیا جائے۔ ٭ قربانی کا حکم: ہر مسلمان گھرانہ پر جو جانور ذبح کرنے کی قدرت رکھتا ہے،اس کے لیے قربانی کرنا سنت واجبہ ہے،اس لیے کہ اللہ کا فرمان ہے:’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔‘‘[3] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’مَنْ کَانَ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَلْیُعِدْ‘ ’’جس نے نماز سے پہلے ذبح کیا،وہ دوبارہ قربانی کرے۔‘‘ [4] حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک انسان اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے بکری ذبح کرتا تھا۔‘‘[5] ٭ قربانی کی فضیلت: سنت قربانی کی فضیلت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد شاہد ہے:((مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ یَوْمَ النَّحْرِ عَمَلًا أَحَبَّ إِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مِنْ ھِرَاقَۃِ دَمٍ،وَإِنَّہُ لَیَأْتِي یَوْمَ
[1] صحیح مسلم، الجنائز، باب ما یقال عند دخول القبور:، حدیث: 974۔ [2] صحیح مسلم، الجنائز، باب مایقال عند دخول القبور والدعاء لأہلہا، حدیث: 975,974۔ [3] الکوثر 2:108۔ [4] صحیح البخاري، الأضاحي، باب ما یشتھی من اللحم یوم النحر، حدیث: 5549، وصحیح مسلم، الأضاحي، باب وقتھا، حدیث: 1960۔ [5] جامع الترمذي، الأضاحي، باب ماجاء أن الشاۃ الواحدۃ تجزیٔ عن أھل البیت، حدیث: 1505، وسنن ابن ماجہ، الأضاحي، باب من ضحٰی بشاۃ عن أھلہ، حدیث: 3147۔