کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 462
مسلمان پر لازم ہے اور یہ کہ اس کا باعث اللہ کی فرماں برداری اور اس کی محبت کا جذبہ ہے۔چنانچہ جب آدمی باوضو ہوکر مسجد پہنچ جائے تو دایاں قدم آگے بڑھائے،جیسا کہ دیگر مساجد میں داخل ہوتے وقت مسنون ہے اور یہ کہے:((بِسْمِ اللّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ،اَللَّھُمَّ اغْفِرْلِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ)) ’’اللہ کے نام سے اور سلام اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر۔اے اللہ!میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘[1] پھر حجرہ شریف کا رخ کرے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام عرض کرے اور مواجہہ(رخ انور)کے سامنے کھڑا ہو کر کہے: ((اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِيُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ))’’اے(اللہ کے)نبی!آپ پر سلامتی اور اللہ کی رحمت و برکات ہوں۔‘‘[2] ((اَللّٰھُمَّ!صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاھِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ،اَللّٰھُمَّ!بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاھِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ)) ’’اے اللہ!محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)پر رحمتیں نازل فرما اور آل محمد پر جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمتیں نازل فرمائیں یقینا تو انتہائی قابل تعریف نہایت بزرگی والا ہے۔اے اللہ!محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)پر برکتیں نازل فرما اور آل محمد پر جس طرح تونے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائیں یقینا تو انتہائی قابل تعریف،نہایت بزرگی والا ہے۔‘‘[3] پھر تھوڑا سا دائیں طرف ہٹے اور یہ کہتا ہوا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سلام عرض کرے: ((اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَابَکْرٍ))’’اے ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ)آپ پر سلامتی ہو۔‘‘ پھر تھوڑا سا اور دائیں طرف ہٹے اور عمر رضی اللہ عنہ کے لیے سلام بایں الفاظ عرض کرے: ((اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عُمَرُ!))’’اے عمر فاروق(رضی اللہ عنہ!)آپ پر سلام ہو۔‘‘[4] یہاں پر بھی دعا مانگتے وقت قبر کی طرف رخ نہ کیا جائے بلکہ قبلہ کی طرف منہ کر کے جو چاہے دعا کرے اور
[1] سنن ابن ماجہ، المساجد، باب الدعاء عند دخول المسجد، حدیث : 771، پھر آسانی سے جگہ مل جائے تو ’رَوْضَۃٌ مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ‘ والے حصہ میں جا کر دو رکعت نماز پڑھے یا جہاں بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی توفیق سے پڑھ سکے، پڑھے۔ [2] صحیح البخاري، الأذان، باب التشہد في الآخرۃ، حدیث: 831۔ [3] صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، باب: 10، حدیث: 3370۔ [4] سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر ان الفاظ سے سلام بھیجنا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل سے ثابت ہے، دیکھیے (فضل الصلاۃ علَی النبي صلی اللہ علیہ وسلم للمحدث الإمام إسماعیل بن إسحاق الجہضمي، ص : 82۔