کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 461
’’تین مساجد کے علاوہ کسی اور کی طرف کجاوے نہ باندھے جائیں(وہ یہ ہیں)مسجد حرام،میری یہ مسجد اور مسجد اقصیٰ۔‘‘[1] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک ایسی خصوصیت سے بھی نوازا ہے جو کسی اور مسجد کو حاصل نہیں ہے،یعنی مسجد کے ایک حصہ میں ریاض الجنۃ کا موجود ہونا جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’مَا بَیْنَ بَیْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَۃٌ مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ‘ ’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان(کی جگہ)بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔‘‘[2] اور یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے:((مَنْ صَلّٰی فِي مَسْجِدِي أَرْبَعِینَ صَلَاۃً لَّا یَفُوتُہُ صَلَاۃٌ کُتِبَتْ لَہُ بَرَائَ ۃٌ مِّنَ النَّارِ وَنَجَاۃٌ مِّنَ الْعَذَابِ وَبَرِی ئَ مِنَ النِّفَاقِ)) ’’جو شخص میری اس مسجد میں چالیس نمازیں پڑھتا ہے،ایک نماز بھی اس سے فوت نہیں ہوتی تو اس کے لیے جہنم سے براء ت اور عذاب سے نجات لکھ دی جاتی ہے اور وہ نفاق سے بھی پاک ہو جاتا ہے۔‘‘[3] اسی لیے اس مسجد کی زیارت ان عبادات میں سے ایک ہے،جنھیں مسلمان اپنے رب تعالیٰ کے تقرب اور اس کی رضاجوئی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ٭ مسجد نبوی کی زیارت،نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صاحبین رضی اللہ عنہما پر سلام: مسجد نبوی کی زیارت چونکہ عبادت ہے،لہٰذا اس کے لیے بھی دیگر عبادات کی طرح نیت کرنا ضروری ہے،اس لیے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔بنابریں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور اس میں نماز پڑھنے میں اللہ جل شانہ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت کرنا
[1] صحیح البخاري، فضل الصلاۃ في مسجد مکۃ و المدینۃ، باب فضل الصلاۃ في مسجد مکۃ و المدینۃ، حدیث: 1189، وصحیح مسلم، الحج، باب فضل المساجد الثلاثۃ، حدیث: 1397۔ [2] صحیح البخاري، فضل الصلاۃ في مسجد مکۃ والمدینۃ، باب فضل مابین القبر والمنبر، حدیث: 1195، وصحیح مسلم، الحج، باب فضل مابین قبرہ صلی اللہ علیہ وسلم و منبرہ و فضل موضع منبرہ، حدیث: 1390۔ [3] [ضعیف] مسند أحمد: 155/3، والمعجم الأوسط للطبراني: 211/6، حدیث: 5440، و مجمع الزوائد: 8/4۔ اس روایت میں نبیط راوی مجہول ہے، علامہ البانی فرماتے ہیں : منذری کا ترغیب : 136/2 میں یہ کہنا کہ اس کے رواۃ ’’الصحیح‘‘ کے رواۃہیں ، وہم ہے، اس لیے کہ نبیط نہ صرف یہ کہ ’’الصحیح‘‘کے رواۃ میں سے نہیں بلکہ بقیہ ستہ کے رواۃ میں سے بھی نہیں ہے، اس کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے۔ (السلسلۃ الضعیفۃ: 540/1)محولہ روایت میں یہ ہے کہ جو شخص چالیس دن باجماعت پہلی تکبیر کے ساتھ نماز پڑھتا ہے، اس کے لیے جہنم اور نفاق کی دو براء ت ثابت ہیں ۔ (الاثری)جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ حسن قرار دیا ہے: ’مَنْ صَلّٰی لِلّٰہِ أَرْبَعِینَ یَوْمًا فِي جَمَاعَۃٍ یُدْرِکُ التَّکْبِیرَۃَ الأُولٰی کُتِبَ لَہٗ بَرَائَ تَانِ: بَرَائَ ۃٌ مِّنَ النَّارِ وَبَرَائَ ۃٌ مِّنَ النِّفَاقِ‘ السلسلۃ الصحیحۃ، حدیث: 1979۔ ترجمہ تقریباً وہی ہے، صرف اس میں مسجد نبوی کی تخصیص نہیں ہے۔(ع۔و)