کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 46
’’اور اللہ ہی کے لیے سب سے اچھے نام ہیں،لہٰذا ان کے ساتھ اس سے دعا کرو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں کج روی اختیار کرتے ہیں۔عنقریب یہ لوگ اپنے اعمال کی سزا پائیں گے۔‘‘[1] نیز فرمانِ الٰہی ہے:﴿قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ اللہ کو پکارو یا رحمان کو،جس نام سے بھی پکارو،اس کے سب سے اچھے نام ہیں۔‘‘[2] اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو ان صفات کے ساتھ موصوف فرمایا ہے:وہ سننے والا،دیکھنے والا،جاننے والا،حکمت والا،طاقتور اور غالب ہے،باریک بین اور باخبر ہے،قدردان اور حلم والا ہے،بخشنے والا اور مہربان ہے۔اس نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا ہے،وہ اپنے عرش پر مستوی ہے،اس نے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ہے،وہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے،ایمان داروں سے راضی ہے اور ان کے علاوہ اس کی اور بھی بے شمار ذاتی و فعلی صفات ہیں،مثلاً:قیامت کے دن اس کا آنا اور ہر رات کے آخری حصے میں آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرمانا۔یہ باتیں اس نے قرآنِ پاک میں ذکر فرمائی ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں کو اپنی زبانِ مبارک سے ارشاد فرمایا ہے۔ 2: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفات سے آگاہ فرمایا ہے۔جیساکہ صحیح احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((یَضْحَکُ اللّٰہُ إِلٰی رَجُلَیْنِ یَقْتُلُ أَحَدُہُمَا الْآخَرَ یَدْخُلَانِ الْجَنَّۃَ)) (کے کیا معنی ہیں ؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس لفظ سے اس کی کیا مراد ہے؟ یہ بھی غلط ہے۔کیونکہ سب اہلِ عرب جانتے ہیں کہ اس لفظ کا بدیہی اور ظاہری معنی’’خوب سننے والا‘‘ ہی ہے تو پھر اس معنی سے کیوں بھاگا جائے؟ اسی طرح یَدٌ اور عین کے معنی ہاتھ اور آنکھ ہے تو لازم ہے کہ اس کو مانا جائے۔ دراصل تفویض کی روش کسی صفت کے ظاہری معنی و مفہوم میں نہیں بلکہ اس کی کیفیت میں اپنانی چاہیے کہ فلاں صفت کے ظاہری معنی تو یہ ہیں جو ہم مانتے ہیں،البتہ اس کی کیفیت ہم نہیں جانتے،وہ اللہ کے سپرد ہے اور وہی بہتر جانتا ہے۔ ٭ اثبات:(۱)کسی چیز کے وجود کی خبر دینا۔ (۲)کتاب و سنت سے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کو ثابت کرنا اور (۳)اللہ کی صفات پر ایمان لانا۔ ٭ نفی:کسی چیز کو نہ ماننا(یہ اثبات کی ضد ہے)۔اس کا شرعی معنی ہے:اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کو اس کے ظاہری اور حقیقی معنی کے ساتھ اسی طرح تسلیم کیا جائے گا جس طرح وہ کتاب و سنت میں وارد ہوئی ہے۔ ٭ إلحاد فی الأسماء:اللہ تعالیٰ کے ناموں یا صفات کی بابت کج روی سے کام لینا،مثلاً:اللہ تعالیٰ کے لیے خود ساختہ نام تجویز کرنا،قیاس آرائی سے کام لیتے ہوئے اس کی من گھڑت صفات بیان کرنا،اس کے ناموں سے مزید نام اخذ کرکے معبودانِ باطلہ کو ان سے موسوم کرنا۔اسی طرح تشبیہ و تمثیل،تعطیل و تاویل یا تفویض سے کام لینا بھی الحاد فی الاسماء ہی کی ایک شکل ہے۔واللہ اعلم۔(ع،ر)
[1] الأعراف 180:7 [2] بنیٓ إسرآء یل 110:17