کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 459
نیز فرمایا:((وَلَا یَثْبُتُ أَحَدٌ عَلٰی لَأْوَائِھَا وَجَھْدِھَا إِلَّا کُنْتُ لَہُ شَفِیعًا أَوْ شَھِیدًا یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ))
’’جو کوئی اس کی شدتوں اور مصائب پر صبر کرے گا،میں قیامت کے دن اس کے لیے سفارشی یا گواہ بنوں گا۔‘‘[1]
اور فرمایا:((مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَّمُوتَ بِالْمَدِینَۃِ فَلْیَفْعَلْ،فَإِنِّي أَشْھَدُ لِمَنْ مَّاتَ بِھَا))
’’تم میں سے جو کوئی مدینہ میں فوت ہونے کی استطاعت رکھتا ہے تو وہ یہ کرے،اس لیے کہ میں اس شہر میں مرنے والوں کے لیے گواہی دوں گا۔‘‘[2]
نیز فرمایا:((إِنَّمَا الْمَدِینَۃُ کَالْکِیرِ تَنْفِي خَبَثَھَا وَیَنْصَعُ طَیِّبُھَا))
’’مدینہ بھٹی کی طرح ہے یہ اپنے(باسیوں کی)میل کھوٹ کو دور کرتا ہے اور اس کے اچھے(لوگ اور زیادہ)خالص ہو جاتے ہیں۔‘‘ [3]
مزید فرمایا:((اَلْمَدِینَۃُ خَیْرٌ لَّھُمْ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ،لَا یَدَعُھَا أَحَدٌ رَّغْبَۃً عَنْھَا إِلَّا أَبْدَلَ اللّٰہُ فِیھَا مَنْ ھُوَ خَیْرٌ مِّنْہُ،وَلَا یَثْبُتُ أَحَدٌ عَلٰی لَأْوَائِ ھَا وَجَھْدِھَا إِلَّا کُنْتُ لَہُ شَفِیعًا أَوْشَھِیدًا یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ))
’’مدینہ ان(لوگوں)کے لیے بہتر ہے،کاش کہ وہ جانتے ہوں،جو کوئی اس سے بے نیازی کرکے چلا جائے گا،اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس میں اس سے بہتر کسی اور کو آباد کرے گا اور جو کوئی اس کی شدتوں اور مصائب پر ثابت قدم رہے گا،میں اس کے لیے قیامت کے دن سفارش کرنے والا اور گواہ ہوں گا۔‘‘ [4]
٭ اہلِ مدینہ کی فضیلت:
مدینہ کے رہنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسائے،آپ کی مسجد کو آباد کرنے والے،آپ کے شہر میں رہنے والے،آپ کے حرم میں ثابت قدم اور آپ کی مقرر کردہ حمی(چراگاہ)کے محافظ ہیں۔جب یہ لوگ استقامت اور نیکی کے حامل ہیں تو عزت وشان میں سب سے اونچے اور مقام ومرتبہ میں سب سے فائق ہیں،ان کا احترام اور عزت وتوقیر ضروری ہے اور ان کی محبت اور دوستی لازم ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ایذا رسانی سے ڈراتے ہوئے فرمایا:((لَا یَکِیدُ أَھْلَ الْمَدِینَۃِ أَحَدٌ إِلَّا انْمَاعَ کَمَا یَنْمَاعُ الْمِلْحُ فِي الْمَائِ))
’’اہل مدینہ کے ساتھ جو کوئی مکرو فریب کرے گا،وہ اس طرح پگھل جائے گا جیسا کہ پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔‘‘[5] اور فرمایا:
[1] صحیح مسلم، الحج، باب فضل المدینۃ، حدیث: 1363۔
[2] [حسن] جامع الترمذي، المناقب، باب ماجاء في فضل المدینۃ، حدیث: 3917 وقال ’’حسن صحیح غریب‘‘ وسنن ابن ماجہ، المناسک، باب فضل المدینۃ، حدیث: 3112۔ اسے امام ابن حبان نے صحیح:الموارد: 1032,1031جبکہ امام بغوی نے حسن کہا ہے، دیکھیے: شرح السنۃ : 324/7۔
[3] صحیح البخاري، الاعتصامبالکتاب والسنۃ، باب ماذکر النبي صلی اللہ علیہ وسلم وحض علی اتفاق أھل العلم:، حدیث: 7322۔
[4] صحیح مسلم، الحج، باب فضل المدینۃ:، حدیث: 1363۔
[5] صحیح البخاري، فضائل المدینۃ، باب إثم من کاد أھلَ المدینۃ، حدیث: 1877۔