کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 455
ستون تک تیز تیز دوڑے۔پھر آہستہ چلے اور ذکر ودعا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود میں منہمک رہے اور جب مروہ پر چڑھ جائے تو(ایک چکر مکمل ہو گیا)’اَللّٰہُ أَکْبَرُ‘ کہے،’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘ کا ورد کرے اور دعا مانگے،جس طرح کہ ’’صفا‘‘ پر کیا تھا اور پھر نیچے اترے،آہستہ چلے درمیان میں آئے تو تیز دوڑے،پھر آہستہ چلے اور ’’صفا‘‘ پر چڑھ جائے،(دوسرا چکر مکمل)پھر تکبیر وتہلیل کہے اور دعا کرے۔پھر ’’مروہ‘‘ کی طرف روانہ ہو جائے اور اسی طرح سات چکر پورے کرے،جس میں آٹھ وقفے ہوں گے۔چار ’’صفا‘‘ اور چار ’’مروہ‘‘(ابتداء صفا سے ہو گی اور انتہا مروہ پر)پھر اگر عمرے کا احرام ہے تو بال اتروائے اور احرام کھول دے،اس طرح اس کا عمرہ پورا ہو گیا۔اور اسی طرح اگر ’’حج تمتع‘‘٭ کا ارادہ ہے تو بھی احرام کھول دے اور اگر صرف حج کا احرام ہے یا عمرہ اور حج دونوں کا اکٹھے احرام ہے تو ’’وقوف عرفات‘‘ اور ’’جمرئہ عقبہ‘‘ کو کنکر مارنے کے بعد دس ذوالحجہ کو احرام کھولے گا۔اگر عمرہ سے فارغ ہو کر احرام کھول دے اور حج فسخ کر دے تو یہ بھی جائز ہے۔اور آٹھ ذوالحجہ کو حج٭ کی نیت سے احرام باندھے،اگر عمرہ مکمل کر کے احرام کھول چکا ہے،جبکہ مفرد٭ اور قارن٭ اپنے احرام پر قائم ہیں اور مذکورہ تاریخ(آٹھ ذوالحجہ)کی صبح کو تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ کی طرف روانہ ہو۔منیٰ میں دن رات رہے اور پانچ نمازیں پڑھے،پھر نو ذوالحجہ کا سورج نکلنے کے بعد منیٰ سے تلبیہ کہتے ہوئے براستہ ’’ضب‘‘ وادیٔ نمرہ کی طرف روانہ ہو اور زوال تک وہاں رہے،پھر غسل کرے اور مسجد میں آئے اور امام کے ساتھ ظہر اور عصر کی نمازیں قصر اور جمع کر کے پڑھے،نماز سے فارغ ہونے کے بعد موقف کی طرف چلے اور عرفات کے میدان میں جہاں بھی چاہے ٹھہر جائے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’وَقَفْتُ ھٰھُنَا،وَعَرَفَۃُ کُلُّھَا مَوْقِفٌ‘
’’میں نے یہاں وقوف کیا ہے،جبکہ پورا عرفات(کا میدان)جائے وقوف ہے۔‘‘ [1]
اور اگر ’’جبل رحمت‘‘ کے دامن میں چٹانوں کے پاس وقوف کرے تو بہتر ہے،اس لیے کہ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقوف کا مقام ہے۔اسے اختیار ہے کہ سوار ہو کر وہاں رہے یا پیدل چلتا ہوا یا بیٹھا رہے اور اس دوران اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ذکر کرے اور دعائیں مانگے۔پھر سورج غروب ہونے اور کچھ رات آنے کے بعد وہاں سے روانہ ہو اور ’’مازمین‘‘ کے
٭ حج تمتع:حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کر کے احرام کھول دینا اور پھر حج کے ایام میں حج کا نئے سرے سے احرام باندھنا حج تمتع کہلاتا ہے۔حج کے مہینوں سے مراد شوال،ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ہیں جبکہ حج کے دنوں سے مراد 8ذوالحجہ سے 13 ذوالحجہ تک کے ایام ہیں۔(ع،ر)
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر ان لوگوں کو جو ہدی(قربانی)نہیں لائے تھے،حج فسخ کرنے اور(عمرہ کر کے)احرام کھول دینے کی اجازت دی تھی۔٭ مفرد سے مراد وہ حاجی ہے جو صرف حج کا احرام باندھے۔
٭ قارن سے مراد وہ شخص ہے جو میقات سے عمرہ اور حج دونوں کا اکٹھا احرام باندھے۔(ع،ر)
[1] صحیح مسلم، الحج، باب ما جاء أن عرفۃ کلھا موقف، حدیث : (1218)2952۔