کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 451
’’اے اللہ!اسے پاک(اور مقبول)حج اور گناہ کو معاف کیا ہوا اور قابل قدر عمل بنا دے۔‘‘[1] 17: پہلے اور دوسرے جمرہ کوکنکر مارنے کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعا کرنا،تیسرے کے بعد نہیں کیونکہ اس کے بعد دعا مستحب نہیں ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیسرے کو کنکر مارنے کے بعد واپس لوٹ جاتے تھے۔[2] 18: ’’جمرئہ عقبہ‘‘ کو وادی کے درمیان میں کھڑے ہو کر اس کی طرف منہ کرکے کنکر مارنا،اس وقت بیت اللہ اس کے بائیں طرف اور منیٰ دائیں طرف ہو۔ 19: مکہ مکرمہ سے(طواف افاضہ کے بعد منیٰ کی طرف)واپسی پر یہ ذکر کرے: ((آئِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ،لِرَبِّنَا حَامِدُونَ،صَدَقَ اللّٰہُ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَھَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ)) ’’ہم واپس ہو رہے ہیں،کوتاہیوں سے رجوع کرنے والے اور اپنے رب کی عبادت اور حمد(تعریف)کرنے والے ہیں،اللہ نے اپنا وعدہ سچا کیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے نے سب لشکروں کو شکست دی۔‘‘ اس لیے کہ واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کلمات مبارکہ فرمایا کرتے تھے۔[3] ٭ مکہ میں داخلے یا عرفہ میں وقوف سے کوئی امر مانع ہو تو کیا کیا جائے؟: جو شخص مکہ مکرمہ میں یا ’’موقف عرفات‘‘ میں بو جہ دشمن یا بیماری یا کسی شدید رکاوٹ کے داخل ہونے سے قاصر ہو،اس پر لازم ہے کہ وہ ایک بکری یا اونٹ یا گائے رکاوٹ کی جگہ ذبح کرے اور اگر ممکن ہو تو جانور کو حرم مکی کی طرف بھیجے اور احرام اتار دے۔ ﴿فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ﴾’’اگر تم روک لیے گئے تو جو جانور آسانی سے میسر ہو دو۔‘‘٭[4] ٭ طواف وداع کا بیان: یہ طواف حج کے تین طوافوں میں سے ایک ہے اور سنت واجبہ ہے،جو شخص اسے بغیر عذر ترک کردے تو وہ گناہگار ہے اور اگر کسی عذر کی وجہ سے چھوڑا تو ’’دم‘‘ نہیں ہے،حج اور عمرہ سے فارغ ہو کر واپس گھر آنے والے ہر فرد پر یہ طواف واجب ہے اور روانگی کے آخری وقت میں یہ طواف کرنا چاہیے۔اس طرح کہ طواف کے بعد کسی اور کام میں مشغول نہ ہو بلکہ فورًا مکہ مکرمہ سے روانگی شروع کر دے،اگر طواف کے بعد کسی غیر ضروری کام اور خرید وفروخت میں مشغول ہو جائے تو دوبارہ طواف کر کے روانہ ہو،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((لَا یَنْفِرَنَّ أَحَدٌ حَتّٰی یَکُونَ آخِرُ عَھْدِہِ بِالْبَیْتِ)) ٭ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ اگر جانور ذبح کرنے سے عاجز ہے تو دس دن کے روزے رکھے،جیسا کہ ترک واجب پر دم کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں دس روزے رکھے جاتے ہیں۔(مؤلف)
[1] [ضعیف] السنن الکبرٰی للبیھقي: 84/5۔ [2] سنن النسائي، مناسک الحج، باب الدعاء بعد رمي الجمار، حدیث: 3085۔ [3] صحیح مسلم، الحج، باب مایقول إذا رجع من سفر الحج وغیرہ، حدیث: 1344، وجامع الترمذي، الحج، باب ماجاء مایقول عندالقفول من الحج و العمرۃ، حدیث: 950۔ [4] البقرۃ 196:2۔