کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 446
رغبت اور شوق دامن گیر ہو۔ 2: طواف کرنے والا بغیر ضرورت کلام نہ کرے اور اگر بولے تو ’’کلمۂ خیر‘‘ ہی کہے،اس لیے کہ آپ کا فرمان ہے: ’فَمَنْ تَکَلَّمَ فِیہِ فَلَا یَتَکَلَّمْ إِلَّا بِخَیْرٍ‘’’طواف کرنے والا طواف میں ’’کلمۂ خیر‘‘ کے علاوہ کچھ نہ کہے۔‘‘ [1] 3: طواف کرنے والا کسی کو اپنے قول وفعل سے ایذا نہ دے،اس لیے کہ ایذا رسانی حرام ہے،بالخصوص اللہ کے گھر میں۔ 4: دوران طواف اللہ عزوجل کا ذکر،دعائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی کثرت ہونی چاہیے۔ ٭ سعی کا بیان: عبادت کی نیت سے ’’صفا ومروہ‘‘ کے درمیان آنا اور جانا سعی کہلاتا ہے،یہ حج اور عمرہ دونوں کا رکن ہے،اس لیے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا: ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللّٰهِ﴾’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔‘‘[2] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’اِسْعَوْا فَإِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلَیْکُمُ السَّعْيَ‘ ’’سعی‘‘ کرو،بے شک اللہ عزوجل نے تم پر سعی فرض کر دی ہے۔‘‘ [3] سعی کی شرطیں،سنن اور آداب درج ذیل ہیں: ٭ سعی کی شرائط: 1: صفا ومروہ کے درمیان سعی سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت کا ارادہ کرے کہ یہ اللہ کی اطاعت وفرماں برداری کے تحت ’’سعی‘‘ ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘ ’’عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘ [4] 2: طواف وسعی میں ترتیب ہونی چاہیے،وہ یہ کہ طواف پہلے کرے اور پھر صفا ومروہ کی سعی۔ 3: لگاتار سعی کرے،البتہ ضرورت کے تحت معمولی وقفہ درمیان میں کیا جاسکتا ہے۔ 4: صفا ومروہ کے درمیان سات چکر دوڑے،اگر ایک چکر یا اس کا کچھ حصہ باقی رہ گیا تو ’’سعی‘‘ نہیں ہوگی،اس لیے کہ مکمل سات چکروں کا نام ہی سعی ہے۔ 5: طواف کے بعد ہی سعی ہونی چاہیے،چاہے طواف قدوم کے بعد ہو جو واجب ہے(اور مکہ میں پہلی آمد کے بعد کیا
[1] [صحیح] جامع الترمذي، الحج، باب ماجاء في الکلام في الطواف، حدیث: 960، یہ روایت عطاء بن السائب کے اختلاط سے پہلے کی ہے، اسے امام ابن حبان وغیرہ نے صحیح کہا ہے۔ [2] البقرۃ 158:2۔ [3] [حسن] مسند أحمد: 421/6۔ [4] صحیح البخاري، بدء الوحيٖ، باب کیف کان بدء الوحي إلٰی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم :، حدیث: 1، وصحیح مسلم، الإمارۃ، باب: :، حدیث: 1907۔