کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 439
فرمایا:اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔‘‘ پوچھا گیا کہ پھر کون سا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:’’پھر گناہوں کی آلودگی سے پاک اور اچھائیوں سے بھرپور حج کا درجہ ہے۔‘‘ [1] اور فرمایا:((مَنْ حَجَّ ھٰذَا الْبَیْتَ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِہِ کَیَوْمٍ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ)) ’’جس شخص نے اس گھر کا حج کیا اور جنسی باتوں میں انہماک اور نافرمانی سے اجتناب کیا،وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہو گیا،جس دن اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا۔‘‘ [2] اور ارشاد فرمایا:’اَلْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَیْسَ لَہُ جَزَائٌ إِلَّا الْجَنَّۃَ‘ ’’گناہوں کی آلودگی سے پاک اور اچھائیوں سے بھرپور حج کی جزا بہشت ہی ہے۔‘‘ [3] نیز فرمایا:’جِھَادُ الْکَبِیرِ وَالضَّعِیفِ وَالْمَرْأَۃِ الْحَجُّ وَالْعُمْرَۃُ‘’’بوڑھے،کمزور اور عورت کا جہاد ’’حج اور عمرہ‘‘ ہے۔‘‘[4] مزید فرمایا:’اَلْعُمْرَۃُ إِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِّمَا بَیْنَھُمَا،وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَیْسَ لَہُ جَزَائٌ إِلَّا الْجَنَّۃَ‘ ’’ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ درمیانی کوتاہیوں کے لیے کفارہ ہے اور ’’حج مبرور‘‘(مقبول حج)کی جزا صرف بہشت ہے۔‘‘ [5] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ نہ کرنے اور اس بارے میں سستی روا رکھنے سے ڈرایا بھی ہے،فرمایا:((مَنْ لَّمْ یَحْبِسْہُ مَرَضٌ أَوْ حَاجَۃٌ ظَاھِرَۃٌ،أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ،وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَائَ یَھُودِیًّا أَوْ نَصْرَانِیًّا)) ’’جو شخص حج نہیں کرتا اور اسے ضروری کام،بیماری یا ظالم حکومت کی رکاوٹ بھی نہیں،وہ چاہے تو یہودی ہو کر مرے یا نصرانی۔‘‘ [6] حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’:جس شخص کے پاس بیت اللہ تک جانے کا زاد راہ اور سواری ہے اور وہ حج نہ کرے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی[7] اور اس لیے کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
[1] صحیح البخاري، الحج، باب فضل الحج المبرور، حدیث: 1519، وصحیح مسلم، الإیمان، باب بیان کون الإیمان باللّٰہ تعالٰی أفضل الأعمال، حدیث: 83 [2] صحیح البخاري، المحصر، باب قول اللّٰہ عزوجل: ، حدیث: 1819و 1521، وصحیح مسلم، الحج، باب فضل الحج والعمرۃ، حدیث: 1350۔ [3] صحیح البخاري، العمرۃ، باب وجوب العمرۃ وفضلھا، حدیث: 1773، وصحیح مسلم، الحج، باب فضل الحج والعمرۃ، حدیث: 1349۔ [4] [صحیح] سنن النسائي، مناسک الحج، باب فضل الحج، حدیث:2627۔ [5] صحیح البخاري، الحج، باب وجوب العمرۃ وفضلھا، حدیث: 1773، وصحیح مسلم، الحج، باب فضل الحج والعمرۃ، حدیث: 1349۔ [6] السنن الکبرٰی للبیھقي: 334/4۔ اس کی سند لیث بن ابی سلیم وغیرہ کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن اس کا مفہوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفًا ثابت ہے۔ [7] [ضعیف] جامع الترمذي، الحج، باب ماجا من التغلیظ في ترک الحج، حدیث: 812، ترمذی شریف میں یہ حدیث مرفوع ہے جبکہ یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً ثابت ہے۔