کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 437
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((بُنِيَ الإِْسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ:شَھَادَۃِ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ،وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ،وَإِیتَائِ الزَّکَاۃِ،وَحَجِّ الْبَیْتِ،وَصَوْمِ رَمَضَانَ)) ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے،اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ کے رسول ہیں،نماز قائم کرنا،زکاۃ دینا،حج بیت اللہ اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔‘‘[1] حج زندگی میں ایک بار فرض ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’اَلْحَجُّ مَرَّۃً،فَمَنْ زَادَ فَھُوَ تَطَوُّعٌ‘ ’’حج ایک بار فرض ہے جو اس سے زائد کرے گا تو یہ نفل ہے۔‘‘ [2] البتہ ہر پانچ سال بعد تکرار مستحب ہے،اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل سے روایت کرتے ہیں:((إِنَّ عَبْدًا صَحَّحْتُ لَہُ جِسْمَہُ وَوَسَّعْتُ عَلَیْہِ فِي الْمَعِیشَۃِ تَمْضِي عَلَیْہِ خَمْسَۃُ أَعْوَامٍ لَا یَفِدُ إِلَيَّ لَمَحْرُومٌ)) ’’جس بندے کو میں نے جسمانی صحت اور روزی میں وسعت دی ہے اور وہ پانچ سال گزرنے کے بعد بھی میرے پاس نہیں آتا تو وہ محروم ہے۔‘‘[3] عمرہ سنت واجبہ ہے،اس لیے کہ فرمان حق تعالیٰ ہے:﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ﴾’’اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے مکمل کرو۔‘‘[4] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے،جب ایک شخص نے عرض کیا کہ میرا باپ بوڑھا ہے،حج وعمرہ کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ ہی سفر کر سکتا ہے تو فرمایا: ((حُجَّ عَنْ أَبِیکَ وَاعْتَمِرْ))’’تو اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ کر۔‘‘ [5] ٭حج اور عمرے کی حکمت: حج وعمرہ کے نتیجہ میں انسان کا نفس گناہوں کے اثرات سے پاک ہو جاتا ہے اور دارِ آخرت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اعزازات حاصل کرنے کا اہل اور مستحق بن جاتا ہے،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’مَنْ حَجَّ ھٰذَا الْبَیْتَ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمٍ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ‘ ’’جس شخص نے اس گھر کا حج کیا اور جنسی باتوں میں انہماک اور نافرمانی سے اجتناب کیا وہ اپنے گناہوں سے
[1] صحیح البخاري، الإیمان، باب دعاؤکم إیمانکم:، حدیث: 8، وصحیح مسلم، الإیمان، باب بیان أرکان الإسلام :، حدیث: 16۔ [2] [صحیح] سنن أبي داود، المناسک، باب فرض الحج، حدیث: 1721، ومسند أحمد: 291/1، والمستدرک للحاکم: 293/2، امام حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [3] [حسن] السنن الکبرٰی للبیھقي: 262/5، وصحیح ابن حبان، الحج، باب ذکر الأخبار عن إثبات الحرمان:، حدیث: 3695، امام منذری نے اس کے حسن ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے،الترغیب والترہیب: 212/2۔ [4] البقرۃ 196:2۔ [5] [صحیح ] سنن النسائي، مناسک الحج، باب العمرۃ عن الرجل الذي لا یستطیع، حدیث: 2638، وسنن أبي داود، المناسک، باب الرجل یحج عن غیرہ، حدیث: 1810، وسنن ابن ماجہ، المناسک، باب الحج عن الحي إذا لم یستطع، حدیث: 2906، وجامع الترمذي، الحج، باب منہ، حدیث: 930، وصحیح ابن حبان، حدیث: 961 وصحیح ابن خزیمۃ، حدیث : 3035و3040، والمستدرک للحاکم: 481/1، وصححہ الحاکم و وافقہ الذھبي۔