کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 435
مباح ہے مگر شرط یہ ہے کہ چبانے والے روزہ دار کے معدہ میں کوئی چیز نہ چلی جائے۔ 7: خوشبو لگانا یا خوشبو دار دھواں لینا بھی مباح ہے،اس لیے کہ شارع سے اس بارہ میں کوئی ممانعت وارد نہیں ہے۔ ٭ روزے دار کو کیا کچھ معاف ہے: 1: تھوک پھینکنے کی بجائے نگل لینا،چاہے زیادہ ہو،اس سے مراد روزہ دار کا اپنا تھوک ہے کسی اور کا نہیں۔ 2: قے یا طعام کی الٹی،بشرطیکہ زبان کی نوک تک آکر واپس معدہ میں نہ چلی جائے۔ 3: بلا اختیار مکھی وغیرہ کا اندر چلے جانا۔ 4: راستے اور کارخانے کا گرد و غبار یا لکڑیوں کے دھوئیں کا اندر چلے جانا۔ان کے علاوہ ہر طرح کے بخارات جن سے احتراز ممکن نہیں،اسی میں داخل ہیں۔ 5: جنبی حالت میں صبح ہوجانا،پھر نماز فجر غسل کرکے پڑھ لے۔ 6: روزہ کی حالت میں احتلام ہو جانا،اس لیے کہ حدیث میں ہے: ’رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَۃٍ:عَنِ النَّائِمِ حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ،وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتّٰی یَحْتَلِمَ،وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتّٰی یَعْقِلَ‘ ’’تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہیں:سونے والا بیدار ہونے تک،نابالغ بالغ ہونے تک اورمجنون سمجھنے تک۔‘‘ [1] 7: غلطی سے یا بھول کر کھاپی لینا،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’مَنْ نَّسِيَ وَھُوَ صَائِمٌ فَأَکَلَ أَوْشَرِبَ فَلْیُتِمَّ صَوْمَہُ فَإِنَّمَا أَطْعَمَہُ اللّٰہُ وَسَقَاہُ‘ ’’جو روزہ دار بھول کر کھا یا پی لے وہ اپنا روزہ پورا کرے۔اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے۔‘‘ [2] اور فرمایا:’مَنْ أَفْطَرَ فِي رَمَضَانَ نَاسِیًا فَلَا قَضَائَ عَلَیْہِ وَلَا کَفَّارَۃَ‘ ’’رمضان المبارک میں جو شخص بھول کر افطار کرلے،اس پر قضا نہیں ہے اور نہ ہی کفارہ۔‘‘ [3] روزے کا کفارہ اور اس کی حکمت کا بیان: ٭ روزے کا کفارہ: شریعت کی مخالفت میں کیے ہوئے کسی گناہ
[1] سنن أبي داود، الحدود، باب في المجنون یسرق أویصیب حدًا، حدیث: 4403، اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن صحیح سند سے ثابت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ’أَمَا بَلَغَکَ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ وَضَعَ عَنْ ثَلَاثَۃٍ: عَنِ الْمَجْنُونِ حَتّٰی یُفِیقَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتّٰی یَحْتَلِمَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ‘ مسند علي بن الجعد، حدیث: 741، یہ قول حکمًا مرفوع ہے۔ [2] صحیح البخاري، الصوم، باب الصائم إذا أکل أو شرب ناسیا، حدیث: 1933، وصحیح مسلم، الصیام، باب أکل الناسي وشربہ:، حدیث: 1155 واللفظ لہ۔ [3] [صحیح] سنن الدارقطني: 177/2، اسے امام ابن خزیمۃ: (239/3، حدیث: 1990)اور ابن حبان (الموارد، حدیث: 906)نے صحیح قرار دیا ہے۔