کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 431
((اَللَّھُمَّ!إِنِّي أَسْأَلُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتِي وَسِعَتْ کُلَّ شَيْئٍ أَنْ تَغْفِرَلِي ذُنُوبِي)) ’’اے اللہ!میں تجھ سے تیری رحمت جو ہر چیز پر وسیع ہے،(کے وسیلے)سے سوال کرتا ہوں کہ میرے گناہوں کی مغفرت فرما۔‘‘[1] 4:سحری کھانا لازم ہے،یعنی رات کے آخری حصے میں روزے کی نیت سے کھانا اور پینا،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’فَصْلُ مَا بَیْنَ صِیَامِنَا وَصِیَامِ أَھْلِ الْکِتَابِ أَکْلَۃُ السَّحَرِ‘’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزہ میں سحری کھانے ہی کا فرق ہے۔‘‘ [2] اور فرمایا:’تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السُّحُورِ بَرَکَۃً‘ ’’سحری کھاؤ اس لیے کہ سحری میں برکت ہے۔‘‘ [3] 5: سحری رات کے آخری اوقات تک مؤخر کرنا بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَیْرٍ مَّا أَخَّرُوا السُّحُورَ وَعَجَّلُوا الْفِطْرَ)) ’’میری امت اس وقت تک بھلائی میں رہے گی جب تک وہ افطار جلدی اور سحری مؤخر کرے گی۔‘‘ [4] سحری کا وقت رات کے آخری نصف سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق سے چند منٹ قبل تک باقی رہتا ہے۔زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ثُمَّ قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ،فَقُلْتُ:کَمْ کَانَ بَیْنَ الْأَذَانِ وَالسُّحُورِ؟ قَالَ:قَدْرُ خَمْسِینَ آیَۃً)) ’’ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی،پھر آپ نماز کے لیے اٹھے،میں نے دریافت کیا اذان اور سحری میں کتنا وقفہ تھا۔کہا:’’پچاس آیات کریمہ کا اندازہ۔‘‘[5] تنبیہ:صبح صادق ہونے میں شک ہو تو کھاپی سکتے ہیں لیکن جب صبح کا یقین ہو جائے تو رک جانا ضروری ہے۔
[1] [حسن] سنن ابن ماجہ، الصیام، باب في الصائم لاترد دعوتہ، حدیث: 1753، والمستدرک للحاکم: 422/1۔ [2] صحیح مسلم، الصیام، باب فضل السحور:، حدیث: 1096۔ [3] صحیح البخاري، الصوم، باب برکۃ السحور:، حدیث: 1923، وصحیح مسلم،الصیام، باب فضل السحور:، حدیث: 1095۔ [4] [حسن] مسند أحمد: 172/5، یہ روایت اپنے شواہد کے ساتھ حسن ہے۔ [5] صحیح البخاري، الصوم، باب قدرکم بین السحور:، حدیث: 1921، وصحیح مسلم، الصیام، باب فضل السحور و تأکید استحبابہ:، حدیث: 1097۔