کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 430
بعد بھی نیت ہو سکتی ہے۔عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:’دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ذَاتَ یَوْمٍ،فَقَالَ:ھَلْ عِنْدَکُمْ شَيْئٌ؟ فَقُلْنَا:لَا،قَالَ:فَإِنِّي إِذَنْ صَائِمٌ‘ ’’ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور فرمایا:’’کیا تمھارے پاس کوئی چیز ہے۔‘‘ ہم نے کہا:نہیں آپ نے فرمایا:’’تو پھر میں روزے دار ہوں۔‘‘ [1] 2:امساک: یعنی کھانے پینے اور مجامعت سے رکنا۔ 3:وقت: اس سے مراد پورا دن ہے،یعنی صبح صادق کے طلوع سے غروب آفتاب تک کا وقت روزے کا وقت ہے۔ اگر کوئی شخص رات کا روزہ رکھے اور دن میں افطار کرے تو یہ صحیح نہیں ہے،اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ﴾ ’’اور رات(کی ابتدا)تک روزہ پورا کرو۔‘‘[2] ٭ روزے میں مسنون امور: 1: افطار جلدی کرنا مسنون ہے،بایں طور کہ سورج غروب ہونے کے فورًا بعد افطار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَّا عَجَّلُوا الْفِطْرَ‘ ’’جب تک لوگ جلدی افطار کریں گے،اچھائی میں رہیں گے۔‘‘ [3] 2: تازہ یا خشک کھجور یا پانی سے روزہ افطار کرنا سنت ہے اور یہ کہ یہ افطار نماز مغرب سے پہلے ہو۔اور ان میں اول الذکر سے افطار افضل ہے اور آخری،یعنی پانی سے افطار ادنیٰ درجہ ہے۔مستحب یہ ہے کہ کھجور کے تین یا پانچ یا سات دانوں سے افطار کیا جائے۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُفْطِرُ قَبْلَ أَنْ یُّصَلِّيَ عَلٰی رُطَبَاتٍ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ رُّطَبَاتٌ فَتُمَیْرَاتٌ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تُمَیْرَاتٌ حَسَاحَسَوَاتٍ مِّنْ مَّائٍ‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تازہ کھجوروں کے ساتھ نماز سے پہلے افطار کرتے تھے،اگر تازہ نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں کے ساتھ،اگر یہ بھی نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ بھر لیتے۔‘‘[4] 3: افطار کے وقت دعا پڑھنا بھی مسنون ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے: ((ذَھَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَائَ اللّٰہُ))’’پیاس ختم ہوگئی،رگیں تر ہوگئیں اور اجر ان شاء اللہ ثابت ہوگیا۔‘‘ [5] اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے:
[1] صحیح مسلم، الصیام، باب جواز صوم النافلہ بنیۃ من النھار قبل الزوال:، حدیث: 1154۔ [2] البقرۃ 187:2۔ [3] صحیح البخاري، الصوم، باب تعجیل الإفطار، حدیث: 1957، وصحیح مسلم، الصیام، باب فضل السحور:، حدیث: 1098۔ [4] [حسن] جامع الترمذي، الصوم، باب ماجاء ما یستحب علیہ الإفطار، حدیث: 696، وقال: حسن غریب، وسنن أبيداود،الصیام، باب ما یفطر علیہ، حدیث: 2356، اسے دارقطنی، حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔ [5] [حسن] سنن أبي داود، الصوم، باب القول عند الإفطار، حدیث: 2357، اسے امام ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم اور ذہبی وغیرہ نے صحیح کہا ہے۔جبکہ ’اَللَّھُمَّ! لَکَ صُمْتُ، وَعَلٰی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ‘ ’’اے اللہ! میں نے تیرے ہی لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کر رہا ہوں ۔‘‘ والی روایت سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔سنن أبيداود، الصیام، باب القول عند الإفطار، حدیث: 2358۔