کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 421
تنبیہ:مذکورہ بالا ایام میں روزے رکھنا مکروہ تنزیہی ہے،جبکہ درج ذیل ایام میں روزے رکھنا مکروہ تحریمی،یعنی حرام ہے:
1: وصال کے روزے:یعنی دو یا زیادہ دن افطار کیے بغیر تسلسل سے روزے رکھنا،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:’لَا تُوَاصِلُوا‘ ’’وصال نہ کرو(بغیر افطار کیے لگاتار روزے نہ رکھو)۔‘‘ [1]
نیز فرمایا:’إِیَّاکُمْ وَالْوِصَالَ‘ ’’اپنے آپ کو وصال(بلا افطار روزے رکھنے)سے بچاؤ۔‘‘ [2]
2: شعبان کی تیس تاریخ کو شک کا روزہ رکھنا بھی ناجائز ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’مَنْ صَامَ یَوْمَ الشَّکِّ فَقَدْ عَصٰی أَبَا الْقَاسِمِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘’’جو شک کے دن کا روزہ رکھے،اس نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔‘‘ [3]
3: سارے سال کے روزے:یعنی کسی بھی دن چھوڑے بغیر پورا سال روزے رکھنا بھی اسی قبیل سے ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ‘ ’’جس نے ہمیشہ روزہ رکھا،اس نے کوئی روزہ نہ رکھا۔‘‘ [4]
نیز فرمایا:’مَنْ صَامَ الْأَبَدَ فَلَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ‘’’جس نے ہمیشہ روزہ رکھا،اس نے نہ تو روزہ رکھا اور نہ افطار کیا۔‘‘ [5]
4: خاوند کی موجودگی میں بیوی کا خاوند کی اجازت کے بغیر(نفلی)روزہ رکھنا بھی حرام ہے۔فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
’لَا تَصُمِ الْمَرْأَۃُ وَبَعْلُھَا شَاھِدٌ إِلَّا بِإِذْنِہِ‘’’کوئی عورت خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے۔‘‘ [6]
٭ حرام روزے:
1: عید الفطر وعید الاضحی کے دن روزہ رکھنا،عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:دو دنوں میں روزہ رکھنے سے
[1] صحیح البخاري، الصوم، باب الوصال، حدیث : 1963۔
[2] صحیح البخاري، الصوم، باب التنکیل لمن أکثر الوصال، حدیث: 1966، و صحیح مسلم، الصیام، باب النھي عن الوصال، حدیث: 1103۔
[3] [حسن] صحیح البخاري، الصوم، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم : ’إذا رأیتم الھلال فصوموا و إذا رأیتموہ فأفطروا‘، قبل حدیث: 1906، وسنن أبي داود، الصیام، باب کراھیۃ صوم یوم الشک، حدیث: 2334 وصححہ الترمذي وابن خزیمۃ وابن حبان والحاکم و الذھبي والدارقطني وغیرھم وللحدیث شواہد کثیرۃ جدا۔
[4] صحیح مسلم، الصیام، باب النھي عن صوم الدھر:، حدیث: 1159۔
[5] [صحیح] مسند أحمد: 198/2، وسنن النسائي الصیام، باب ذکر الاختلاف علٰی عطاء في الخبرفیہ، حدیث: 2376، وسنن ابن ماجہ، الصیام، باب ماجاء في صیام الدھر، حدیث: 1705، وصحیح ابنحبان: 347/8، حدیث: 3581، والمستدرک للحاکم: 435/1، اسے امام حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔
[6] صحیح البخاري،النکاح، باب صوم المرأۃ بإذن زوجھا تطوعا، حدیث: 5192، و صحیح مسلم، الزکاۃ، باب ما أنفق العبد من مال مولاہ، حدیث: 1026 واللفظ لہ۔