کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 417
أَحَدٌ غَیْرُھُمْ،یُقَالُ:أَیْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَیَقُومُونَ،لَا یَدْخُلُ مِنْہُ أَحَدٌ غَیْرُھُمْ،فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ،فَلَمْ یَدْخُلْ مِنْہُ أَحَدٌ‘ ’’جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ’’ریان‘‘ کہا جاتا ہے،قیامت کے دن اس سے روزے دار داخل ہوں گے۔ان کے علاوہ اس میں سے کوئی اندر نہیں جاسکے گا۔پکارا جائے گا روزے دار کہاں ہیں ؟ وہ کھڑے ہوجائیں گے،ان کے سوا کوئی اور اس(دروازے)سے داخل نہیں ہو گا۔جب یہ داخل ہو جائیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا،پھر بعد میں کوئی بھی اس میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ [1] 4 روزے کے فوائد: روزے کے کئی روحانی،اجتماعی اور طبی فائدے ہیں۔روزے کے روحانی فوائد میں ’’صفت صبر‘‘ کا حصول اور اسے قوی بنانا ہے،یہ اپنے آپ پر کنٹرول کرنا سکھاتا ہے اور اس میں معاون بنتا ہے،اسی طرح نفس وروح میں تقویٰ کا ملکہ پیدا کرتا اور اسے بڑھاتا ہے۔اور یہ علت تقوٰی،اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان سے واضح ہوتی ہے۔ارشاد ہے:﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ ’’اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘[2] روزے کے اجتماعی فوائد میں سے یہ ہے کہ اس سے امت میں نظم ونسق اور اتحاد کی عادت پیدا ہوتی ہے،عدل و مساوات سے محبت بڑھتی ہے اور ایمانداروں میں جذبۂ ترحم اور ایک دوسرے پر احسان کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے اور اسی طرح روزہ معاشرے کو مفاسد اور خرابیوں سے بچاتا ہے۔اور روزے کے طبی فوائد میں سے یہ ہے کہ اس سے آنتیں درست ہوتی ہیں،معدے کی اصلاح ہو جاتی ہے،یہ جسم کو فضلات اور بے کار اجزاء سے پاک وصاف کرتا ہے اور اسی طرح موٹاپے اور پیٹ کی چربی کے بوجھ میں کمی کا موجب بنتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں ہے: صُومُوا تَصِحُّوا‘ ’’روزہ رکھو تندرست ہو جاؤ گے۔‘‘ [3] ٭ مستحب روزے: درج ذیل ایام میں روزہ رکھنا مستحب ہے: 1: نو ذو الحجہ کو روزہ رکھنا مستحب ہے:سوائے مُحرِم(جس نے احرام حج باندھا ہے)کے،وہ روزہ نہ رکھے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما ن ہے: ’صِیَامُ یَوْمِ عَرَفَۃَ،أَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّکَفِّرَ السَّنَۃَ الَّتِي قَبْلَہُ،وَالسَّنَۃَ الَّتِي بَعْدَہُ وَصِیَامُ یَوْمِ
[1] صحیح البخاري، الصوم، باب الریان للصائمین، حدیث: 1896، وصحیح مسلم، الصیام، باب فضل الصیام، حدیث: 1152۔ [2] البقرۃ 183:2۔ [3] [ضعیف] امام عراقی نے کہا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے، فیض القدیر للمناوي: 3753/7، حدیث: 5060۔