کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 415
ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے: ((فَرَضَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُھْرَۃً لِّلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَۃً لِّلْمَسَاکِینِ،مَنْ أَدَّاھَا قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَھِيَ زَکَاۃٌ مَّقْبُولَۃٌ،وَمَنْ أَدَّاھَا بَعْدَ الصَّلَاۃِ فَھِيَ صَدَقَۃٌ مِّنَ الصَّدَقَاتِ)) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کو لغو ورفث سے پاک کرنے اور مساکین کو خوراک مہیا کرنے کے لیے صدقۂ فطر فرض قرار دیا ہے،چنانچہ جو نماز سے پہلے ادا کرے گا،وہ زکاۃ ہے،اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے گا اور جو نماز کے بعد ادا کرے گا تو یہ عام خیرات ہے۔‘‘ [1] 6. صدقۂ فطر کا مصرف: اس کے مصارف بھی عام مالی زکاۃ کی طرح ہیں،البتہ باقی مصارف کے بجائے بہتر یہ ہے کہ فقراء اور مساکین کو یہ خیرات دی جائے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’أَغْنُوھُمْ عَنْ طَوَافِ ھٰذَا الْیَوْمِ‘ ’’اس دن ان(مساکین)کو سوال سے بے نیاز کر دو۔‘‘ [2] غیر فقراء کو اس صورت میں دیا جاسکتا ہے،جب فقراء نہ ہوں یا ان کی ضرورت معمولی ہو یا فقیر کے علاوہ دوسرے حقداروں کی ضرورت بہت زیادہ ہو۔ تنبیہات: 1: دولت مند عورت اپنے فقیر خاوند کو صدقۂ فطر دے سکتی ہے،جبکہ خاوند اپنی بیوی کوزکاۃ نہیں دے سکتا،اس لیے کہ بیوی کا خرچ خاوند پر لازم ہے اور خاوند کا خرچ بیوی پر نہیں ہے۔ 2: اس شخص سے صدقۂ فطر ساقط ہو جائے گا جو ایک دن کی خوراک کا بھی مالک نہیں ہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔ 3: ایک دن کی خوراک سے زیادہ کا مالک جب صدقۂ فطر کسی کو دے گا تو یہ اس کے لیے کفایت کرے گا،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾’’اللہ سے اتنا ڈرو جتنی تم طاقت رکھتے ہو۔‘‘[3] 4: ایک شخص کا صدقۂ فطر کئی افراد کو دیا جاسکتا ہے اور کئی افراد کا صدقہ ایک فرد کو بھی دیا جاسکتا ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملہ میں کسی قسم کی حدبندی اور تعیین وارد نہیں۔ 5: مسلمان پر زکاۃ فطر اسی شہر میں واجب ہے جس میں وہ مقیم ہے۔ 6: ایک شہر سے دوسرے شہر میں زکاۃ فطر منتقل نہ کی جائے،اِلَّا یہ کہ کوئی ضرورت درپیش ہو،نیز اس معاملہ میں
[1] سنن أبي داود، الزکاۃ، باب زکاۃ الفطر، حدیث: 1609، وسنن ابن ماجہ، الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، حدیث: 1827، والمستدرک للحاکم: 409/1، علٰی شرط البخاري ووافقہ الذہبي۔ [2] [ضعیف] السنن الکبرٰی للبیھقي: 175/4، اس کی سند ابو معشر السندی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ [3] التغابن 16:64۔