کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 399
رَّسُولُ اللّٰہِ،وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ،وَإِیتَائِ الزَّکَاۃِ،وَحَجِّ الْبَیْتِ،وَصَوْمِ رَمَضَانَ‘ ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے،اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یقینا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ کے رسول ہیں،نماز قائم کرنا،زکاۃ ادا کرنا،بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘ [1] اور فرمایا:’أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوا أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ وَیُقِیمُوا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ،فَإِذَا فَعَلُوا ذٰلِکَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَ ھُمْ وَأَمْوَالَھُمْ إِلَّا بِحَقِّ الإِْسْلَامِ،وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ‘ ’’مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی کروں،یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئیمعبود نہیں اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ کے رسول ہیں،نماز قائم کریں اورزکاۃ ادا کریں۔جب یہ کام سر انجام دیں گے تو وہ مجھ سے اپنے خون اور اموال محفوظ کرلیں گے،سوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ پر ہو گا۔‘‘ [2] اور جب آپ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ کیا تو فرمایا:’إِنَّکَ تَأْتِي قَوْمًا أَھْلَ کِتَابٍ،فَادْعُھُمْ إِلٰی شَھَادَۃِ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّي رَسُولُ اللّٰہِ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوکَ لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ [عَزَّوَجَلَّ] افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ،فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوکَ لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً فِي أَمْوَالِھِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِ ھِمْ وَتُرَدُّ فِي فُقَرَائِ ھِمْ،فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوکَ لِذٰلِکَ،فَإِیَّاکَ وَکَرَائِمَ أَمْوَالِھِمْ وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّھَا لَیْسَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ‘ ’’تو اہل کتاب کے پاس جا رہا ہے،انھیں اس شہادت کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں،اگر وہ لوگ اسے تسلیم کر لیں تو پھر انھیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں،اگر وہ اسے بھی تسلیم کر لیں تو انھیں خبر دینا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے اغنیاء سے وصول کر کے انھی کے فقراء میں تقسیم کیا جائے گا،اگر وہ یہ بھی تسلیم کر لیں تو ان کے قیمتی اموال سے خود کو بچانا اور مظلوم کی بددعا سے ڈرنا،اس لیے کہ اللہ اور اس کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے۔‘‘ [3] زکاۃ کی حکمت: زکاۃ کی مشروعیت میں درج ذیل حکمتیں پنہاں ہیں: 1. بخل اور کنجوسی سے انسانی مزاج کا صاف و پاک ہونا۔
[1] صحیح البخاري، الإیمان، باب دعاؤکم إیمانکم:، حدیث: 8، وصحیح مسلم، الإیمان، باب بیان أرکان الإسلام و دعائمہٖ العظام، حدیث:16۔ [2] صحیح البخاري، الإیمان، باب ،حدیث: 25، وصحیح مسلم، الإیمان، باب الأمر بقتال الناس:، حدیث: 22۔ [3] صحیح البخاري، الزکاۃ، باب أخذ الصدقۃ من الأغنیاء:، حدیث: 1496، وسنن أبي داود، الزکاۃ، باب في زکاۃ السائمۃ، حدیث: 1584 واللفظ لہ۔