کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 398
15 عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کا حکم:
علماء کا اتفاق ہے کہ عورتوں کا بار بار قبرستان جانا حرام ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’لَعَنَ اللّٰہُ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ‘ ’’اللہ نے قبروں کی زیارت کے لیے کثرت سے جانے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔‘‘[1]
مذکورہ حدیث کی بنا پر بعض علماء نے عورتوں کے قبرستان جانے کو مطلقًا ناپسند کیا ہے،البتہ بعض دیگر علماء نے کبھی کبھار جانے کی رخصت دی ہے کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھائی عبد الرحمان رضی اللہ عنہ کی قبر پر گئی تھیں۔جب ان سے پوچھا گیا تو فرمایا:ہاں پہلے قبروں کی زیارت ممنوع تھی،بعد ازاں اس کی اجازت دے دی گئی تھی۔[2]
البتہ جو علماء جواز کے قائل ہیں،وہ یہ شرط ضرور لگاتے ہیں کہ وہ وہاں جاکر کوئی خلاف شرع کام نہ کرے،قبر کے پاس نوحہ نہ کرے،اونچی آواز نہ نکالے،زیب وزینت کر کے نہ جائے،میت کو امداد کے لیے نہ پکارے اور نہ اس سے اپنی حاجات کا سوال کرے اور اسی طرح کے دیگر کام جو دینی امور سے ناواقف عورتیں کرتی ہیں،نہ کرے۔
باب:10 زکاۃ کا بیان
زکاۃ کا حکم،اس کی حکمت اور زکاۃ نہ دینے والے کا حکم:
زکاۃ کا حکم:
زکاۃ ہر اس مسلمان پر اللہ کی طرف سے فرض ہے جو کسی مال کے نصاب کا مالک ہو،قرآن پاک میں آیات ذیل اسے فرض قرار دیتی ہیں:
﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا﴾’’ان کے مالوں میں سے صدقہ وصول کر کے انھیں پاک بنائیے اور ان کا تزکیہ کیجیے۔‘‘[3]
اور فرمان الٰہی ہے:﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ﴾
’’اے ایمان والو!اس پاک مال میں سے جو تم کماتے ہو اور جو ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالا،خرچ کرو۔‘‘[4]
نیز ارشاد ہوا:﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ﴾’’اور نماز قائم کرو اور زکاۃ دو۔‘‘[5]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’بُنِيَ الإِْسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ:شَھَادَۃِ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا
[1] [حسن] جامع الترمذي، الجنائز، باب ماجاء في کراھیۃ زیارۃ القبور للنساء، حدیث: 1056، وسنن ابن ماجہ، الجنائز، باب ماجاء في النہي عن زیارۃ النساء القبور، حدیث: 1576، والسنن الکبرٰی للبیھقي: 78/4۔ اسے امام ترمذی اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔
[2] [صحیح] المستدرک للحاکم: 376/1، والسنن الکبرٰی للبیھقي: 78/4، امام ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔
[3] التوبۃ 103:9۔
[4] البقرۃ 267:2
[5] البقرۃ 43:2۔