کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 393
سے پوچھا جائے گا۔‘‘[1] آپ دفن سے فارغ ہو کر یہ حکم فرمایا کرتے تھے اور بعض سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم یہ دعا بھی پڑھتے تھے: ((اَللَّھُمَّ!ھٰذَا عَبْدُکَ نَزَلَ بِکَ وَأَنْتَ خَیْرُ مَنْزُولٍ بِہِ فَاغْفِرْلَہُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَہُ)) ’’اے اللہ!یہ تیرا بندہ ہے،تیرے پاس آ گیا ہے اور تیرے پاس اچھا مقام نزول ہے،پس اس کی مغفرت کر اور اس کے داخل ہونے کی جگہ وسیع بنا۔‘‘[2] 2 قبر کو زمین کے برابر کیا جائے یا کیسا رکھا جائے: مناسب یہی ہے کہ قبر کو زمین کے برابر کر دیا جائے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو زمین کے ساتھ ہموار کرنے کا حکم دیا ہے،ہاں اگر ایک بالشت کے قدر اونٹ کی کوہان کی طرح اونچی کر لی جائے تو جائز ہے اور جمہور علماء نے اسی کو مستحب قرار دیا ہے،اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک بھی اسی طرح کوہان نما ہے۔[3] قبر پر نشان کے طور پر پتھر وغیرہ رکھ دینا جائز ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر کو ایک پتھر رکھ کر ممیز کر کے فرمایا تھا:((أَتَعَلَّمُ بِھَا قَبْرَ أَخِي،وَأَدْفِنُ إِلَیْہِ مَنْ مَّاتَ مِنْ أَھْلِي)) ’’میں اس علامت سے اپنے بھائی کی قبر پہچان لوں گا اور میرے اہل میں سے جو فوت ہوا میں اسے اس کے پاس دفن کروں گا۔‘‘ [4] 3 قبر کو پکا اور چونا گچ کرنے کی حرمت: قبر کو چونے سے پختہ کرنا اور اس پر عمارت بنانا حرام ہے،اس لیے کہ امام مسلم رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں:’نَھٰی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَنْ یُّجَصَّصَ الْقَبْرُ وَأَنْ یُّقْعَدَ عَلَیْہِ وأَنْ یُّبْنٰی عَلَیْہِ‘’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے کہ قبر کو چونے سے پختہ کیا جائے،اس پہ بیٹھا جائے یا اس پر کوئی عمارت بنائی جائے۔‘‘[5] 4 قبر پر بیٹھنے کی کراہت: مسلمان کے لیے ناجائز ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی قبر پر بیٹھے یا اپنے پاؤں سے اسے روندے،اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (لَا تَجْلِسُوا عَلَی الْقُبُورِ وَلَا تُصَلُّوا إِلَیْھَا))
[1] [صحیح] سنن أبي داود، الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للمیت:، حدیث: 3221، والمستدرک للحاکم: 370/1، امام حاکم اور ان کی موافقت میں امام ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے [2] لم أجدہ وبعضہ موجود في الأذکار للنووي باختلاف کثیر،ص: 146۔ [3] صحیح مسلم، الجنائز، باب الأمر بتسویۃ القبر، حدیث: 968، وصحیح البخاري، الجنائز، باب ماجاء في قبر النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، وأبي بکر و عمر رضی اللہ عنہما ، حدیث: 1390۔ [4] [حسن ] سنن أبي داود، الجنائز، باب في جمع الموتٰی في قبر والقبر یعلم، حدیث: 3206۔ [5] صحیح مسلم، الجنائز، باب النھي عن تجصیص القبر:، حدیث: 970۔