کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 392
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی پہلے کس کو قبر میں اتاریں۔تو آپ نے فرمایا:’قَدِّمُوا أَکْثَرَھُمْ قُرْآنًا‘ ’’جسے قرآن زیادہ آتا ہے،اسے آگے کرو۔‘‘[1]
٭ ’’شق‘‘ کے انداز کی قبر بھی(ضرورت کے وقت)جائز ہے مگر افضل ’’لحد‘‘ ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے:’اَللَّحْدُ لَنَا وَالشَّقُّ لِغَیْرِنَا‘ ’’لحد ہمارے لیے ہے اور شق ہمارے غیروں کے لیے۔‘‘[2]
’’لحد‘‘ قبر کے گڑھے میں نیچے دائیں طرف کھودنا اور ’’شق‘‘ گڑھے کے درمیان میں کھودنا ہوتا ہے۔
٭ دفن میں شریک ہونے والوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے تین بار مٹی قبر کے سرہانے کی طرف سے ڈالیں،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا،جیسا کہ سنن ابن ما جہ کی روایت سے ثابت ہے۔[3]
٭ میت کو قبر کی پائنتی کی طرف سے داخل کیا جائے،بشرطیکہ آسانی سے ایسا ہو سکے اور قبر میں میت کو دائیں پہلو پر قبلہ رخ کر کے لٹایا جائے اور کفن کے بندھن کے جوڑ کھول دیے جائیں اور یہ دعا پڑھی جائے:’بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ‘
’’اللہ کے نام سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت پر(ہم اسے رکھ رہے ہیں۔)‘‘[4]
٭ عورت کو قبر میں رکھتے وقت پردہ کر لیا جائے،اس لیے کہ سلف صالحین رحمہ اللہ کا عورت کے لیے یہی معمول تھا،مرد کے لیے نہیں۔
دفن کے بعد کے جملہ مسائل:
1 میت کے لیے مغفرت کی دعا کرنا:
دفن میں شریک ہونے والوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ میت کے لیے استغفار کریں اور اس کے لیے سوال میں ثابت قدمی کی دعا کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے:’اِسْتَغْفِرُوا لِأَخِیکُمْ وَسَلُوا اللّٰہَ لَہُ التَّثْبِیتَ،فَإِنَّہُ الْآنَ یُسْأَلُ‘
’’اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعا کرو اور اس کے لیے اللہ سے ثابت قدمی کا سوال کرو،اس لیے کہ اب اس
[1] جامع الترمذي، الجھاد، باب ما جاء في دفن الشھداء، حدیث: 1713، وسنن النسائي، الجنائز، باب ما یستحب من إعماق القبر، حدیث: 2012۔ بحری سفر کے دوران کسی کے فوت ہونے کی صورت میں اگر جسم کے خراب ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو تاخیر جائز ہے ورنہ غسل دے کر جنازہ پڑھا جائے اور جسم کے ساتھ کوئی بھاری چیز باندھ کر سمندر کے حوالے کر دیا جائے یہ جائز ہے۔یہی علماء کا فتویٰ ہے۔(مؤلف)
[2] [ضعیف] مسند أحمد: 357/4، وسنن أبي داود، الجنائز، باب في اللحد، حدیث: 3208، وجامع الترمذي، الجنائز، باب ماجاء في قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم ’اَللَّحْدُ لَنَا وَالشَّقُّ لِغَیْرِنَا‘، حدیث: 1045، اس کی سند عبدالاعلی ثعلبی کی وجہ سے ضعیف ہے۔
[3] سنن ابن ماجہ، الجنائز، باب ماجاء في حثوالتراب في القبر، حدیث: 1565۔
[4] [صحیح] سنن أبي داود، الجنائز، باب في الدعاء للمیت إذا وضع في قبرہ، حدیث: 3213، والمستدرک للحاکم: 366/1 واللفظ لہ، امام حاکم، ذہبی اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے، نیل المقصود۔