کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 391
’’جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ چلا،پھر نماز جنازہ اور دفن تک اس کے ساتھ رہا تو وہ دو قیراط ثواب کے ساتھ واپس آیا(جبکہ)ایک قیراط احد پہاڑ کے مثل ہے،جو شخص اس کی نماز جنازہ پڑھ کر دفن سے قبل ہی لوٹ آیا تو وہ ایک قیراط ثواب کے ساتھ واپس آیا۔‘‘[1] 21 میت کے ساتھ چلتے وقت کیا کچھ مکروہ ہے: جنازے کے ساتھ عورتوں کا جانا ناجائز ہے۔ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:’نُھِینَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَلَمْ یُعْزَمْ عَلَیْنَا‘ ’’ہمیں جنازے کے ساتھ جانے سے منع کیا جاتا تھا مگر اسے ہم پر لازم اور ضروری قرار نہیں دیا گیا۔‘‘[2] اسی طرح جنازہ کے پاس اونچی آواز سے ذکر وقراء ت کرنا یا اسی طرح کا کوئی اور کام کرنا ناپسندیدہ اور مکروہ ہے،اس لیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تین اوقات میں آوازیں اونچی کرنا پسند نہیں کرتے تھے:جنازے کے ساتھ،ذکر کے لیے اور لڑائی کے وقت۔یہ حدیث ابن منذر نے قیس بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے ذکر کی ہے۔ اسی طرح جنازہ نیچے رکھنے سے پہلے بیٹھ جانا بھی ناپسندیدہ فعل ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: ’إِذَا اتَّبَعْتُمْ جَنَازَۃً فَلَا تَجْلِسُوا حَتّٰی تُوضَعَ‘’’جب تم جنازے کے ساتھ جاؤ تو اسے زمین پر رکھنے سے پہلے نہ بیٹھو۔‘‘[3] 22 میت کو دفن کرنے کا حکم: جسم کو مٹی میں دفنانا فرض ہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ﴾’’پھر اسے موت دی اور قبر میں دفن کرایا۔‘‘[4] دفنانے کے چند احکام حسب ذیل ہیں: ٭ قبر گہری کھودی جائے تاکہ درندے اور پرندے میت تک رسائی حاصل نہ کر سکیں اور دفن کرتے وقت اچھی طرح قبر بند کی جائے تاکہ ہوا باہر نہ آسکے اور دوسروں کے لیے ایذا کا باعث نہ بن جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’اِحْفِرُوا وَأَعْمِقُوا وَأَحْسِنُوا وَادْفِنُوا الْاِثْنَیْنِ وَالثَّلَاثَۃَ فِي قَبْرٍ وَّاحِدٍ‘ ’’قبر گہری کھودو،اچھی بناؤ اور ایک قبر میں دو دو تین تین دفن کرو۔‘‘[5]
[1] صحیح البخاري، الإیمان، باب اتباع الجنائز من الإیمان، حدیث: 47۔ [2] صحیح البخاري، الجنائز، باب اتباع النساء الجنازۃ، حدیث: 1278، و صحیح مسلم، الجنائز، باب نھي النساء عن اتباع الجنائز، حدیث: 938۔ [3] صحیح مسلم، الجنائز، باب القیام للجنازۃ، حدیث: 959۔ [4] عبس 21:80۔ [5] [صحیح] سنن النسائي، الجنائز، باب مایستحب من إعماق القبر، حدیث: 2012، وسنن أبي داود، الجنائز، باب في تعمیق القبر، حدیث: 3215، وجامع الترمذي، الجہاد، باب ماجاء في دفن الشہداء، حدیث: 1713 وقال حسن صحیح، وسنن ابن ماجہ، الجنائز، باب ماجاء في حفر القبر، حدیث: 1560۔