کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 390
سَلَفِ الْمُؤْمِنِینَ فِي کَفَالَۃِ إِبْرَاھِیمَ،وَأَبْدِلْہُ دَارًا خَیْرًا مِّنْ دَارِہِ وَأَھْلًا خَیْرًا مِّنْ أَھْلِہِ،وَعَافِہِ مِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ جَھَنَّمَ‘ ’’اے اللہ!اسے اس کے والدین کے لیے پیش رو،ذخیرہ اور آگے جانے والا بنا اور اس کے ذریعے سے ان کا ترازو بھاری کر اور انھیں اجر عظیم عطا کر،ہمیں اور انھیں اس کے اجر سے محروم نہ کر اور نہ ہی ہمیں اور انھیں اس کے بعد آزمائش میں ڈال۔اے اللہ!اسے پہلے جانے والے صالح ایمان داروں کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام کی کفالت میں ملا دے[1] اسے اس کے گھر سے بہتر گھر دے اور اسے اس کے اہل سے بہتر اہل دے اور اسے آزمائش قبر اور عذاب جہنم سے عافیت عطا فرما۔‘‘[2] 20 جنازے کے ساتھ چلنے کی فضیلت: جنازے کے ساتھ جانا مسنون ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’عُودُوا الْمَرِیضَ وَامْشُوا مَعَ الْجَنَازَۃِ تُذَکِّرْ کُمُ الْآخِرَۃَ‘ ’’بیمار کی عیادت کرو اور جنازے کے ساتھ چلو،یہ عمل تمھیں آخرت یاد کرائے گا۔‘‘[3] جنازہ جلدی اٹھانا چاہیے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((أَسْرِعُوا بِالْجَنَازَۃِ،فَإِنْ تَکُ صَالِحَۃً فَخَیْرٌ تُقَدِّمُونَھَا إِلَیْہِ،وَإِنْ تَکُ سِوٰی ذٰلِکَ فَشَرٌّ تَضَعُونَہُ عَنْ رِّقَابِکُمْ)) ’’جنازے میں جلدی کرو،اگر نیک ہے تو تم اچھائی کی طرف اسے لے جا رہے ہو اور اگر ایسا نہیں تو ’’شر‘‘ ہے،جسے تم جلدی اپنی گردنوں سے اتار لو گے۔‘‘[4] جنازے کے آگے چلنا بہتر ہے،اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم،ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ جنازے کے آگے چلتے تھے۔[5] جنازے کے ساتھ چلنے کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:((مَنِ اتَّبَعَ جَنَازَۃَ مُسْلِمٍ إِیمَانًا وَّاحْتِسَابًا،وَکَان مَعَہُ حَتّٰی یُصَلّٰی عَلَیْھَا وَیُفْرَغَ مِنْ دَفْنِھَا،فَإِنَّہُ یَرْجِعُ مِنَ الْأَجْرِ بِقِیرَاطَیْنِ،کُلُّ قِیراطٍ مِّثْلُ أُحُدٍ،وَمَنْ صَلّٰی عَلَیْھَا ثُمَّ رَجَعَ قَبْلَ أَنْ تُدْفَنَ،فَإِنَّہُ یَرْجِعُ بِقِیرَاطٍ))
[1] مسند أحمد: 326/2، میں ہے کہ وفات کے بعد مسلمانوں کے بچے جنت میں جاتے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی کفالت کرتے ہیں ۔وَاللّٰہ أعلم [2] لم أجدہ وبعض ألفاظہ موجودۃ في الأذکار للنووي، ص: 144 باختلاف کثیر بلا سند، مجھے یہ روایت کہیں نہیں ملی۔ [3] [صحیح] مسند أحمد: 23/3۔ [4] صحیح البخاري، الجنائز، باب السرعۃ بالجنائز، حدیث:1315، و صحیح مسلم، الجنائز، باب الإسراع بالجنازۃ، حدیث: 944۔ [5] [صحیح ] سنن أبي داود، الجنائز، باب المشي أمام الجنازۃ، حدیث: 3179، وسنن النسائي، الجنائز، باب مکان الماشي من الجنازۃ، حدیث :1947 وقال ھذا خطاء والصواب مرسل اس کی سند صحیح ہے، دیکھیے نیل المقصود۔جمہور ائمہ رحمۃ اللہ علیہم جنازے کے آگے چلنے کو افضل قرار دیتے ہیں ۔ (مؤلف)پیچھے چلنا بہتر ہے جیساکہ اس کے بعد والی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔(زبیر علیزئی)