کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 388
’’جس میت پر تین صفوں نے نماز جنازہ پڑھی،انھوں نے(اس کے لیے جنت کو)واجب کر لیا۔‘‘[1]
امام ایک میت یا زیادہ اموات پر نماز جنازہ کے ارادے سے ہاتھ اٹھائے اور ’اَللّٰہُ أَکْبَرُ‘ کہے،پھر حمد وثنا کرے اور سورئہ فاتحہ پڑھے،پھر ہاتھ اٹھا کر تکبیر ’اَللّٰہُ أَکْبَرُ‘ کہے یا ہاتھ نہ اٹھائے بلکہ دایاں ہاتھ بائیں سے پکڑ کر سینے پر رکھے۔دونوں طرح درست ہے۔اور درود ابراہیمی پڑھے،پھر ’اَللّٰہُ أَکْبَرُ‘ کہے اور میت کے لیے دعا کرے،پھر ’اَللّٰہُ أَکْبَرُ‘ کہے،چاہے تو دعا کر لے اور چاہے تو سلام کہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے:
((اَلسُّنَّۃُ فِي الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَازَۃِ أَنْ یُّکَبِّرَ الإِْمَامُ ثُمَّ یَقْرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ بَعْدَ التَّکْبِیرَۃِ الْأُولٰی سِرًّا فِي نَفْسِہِ ثُمَّ یُصَلِّيَ عَلَی النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَیُخْلِصَ الدُّعَائَ لِلْمَیِّتِ فِي التَّکْبِیرَاتِ،لَا یَقْرَأُ فِي شَيْئٍ مِّنْھُنَّ،ثُمَّ یُسَلِّمَ سِرًّا فِي نَفْسِہِ))
’’نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ امام تکبیر کہے اور آہستہ،دل میں فاتحۃ الکتاب پڑھے،پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے اور تکبیرات کے دوران میں میت کے لیے خلوص سے دعا کرے اور قراء ت نہ کرے،پھر آہستہ سے سلام کہے۔‘‘[2]
17 نماز جنازہ سے پیچھے رہ جانے والے شخص کا حکم:
اگر کوئی شخص بعض تکبیرات میں شامل نہ ہو سکا ہو تو اگر وہ چاہے تو امام کے سلام کے بعد باقی تکبیرات پوری کرے اور چاہے تو امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دے،اس لیے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے پوچھا:اگر بعض تکبیرات میں سن نہ سکوں تو کیا کروں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَا سَمِعْتِ فَکَبِّرِي،وَمَا فَاتَکِ فَلَا قَضَائَ عَلَیْکِ))’’جو سن لے تکبیر کہہ اور جو نہ سن سکے،اس کی تیرے اوپر قضا نہیں ہے۔‘‘[3]
اس روایت سے صاحب ’’المغنی‘‘نے استدلال کیا ہے مگر اس کے ماخذ کا مجھے پتہ نہیں چل سکا۔
[1] [ضعیف] جامع الترمذي، الجنائز، باب کیف الصلاۃ علٰی المیت والشفاعۃ لہ، حدیث: 1028، اس کی سند ابن اسحاق کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے دیکھیے: نیل المقصود، حدیث : 3166۔
[2] [صحیح ] کتاب الأم: 141/2، حدیث: 589، اس کی سند شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عام لوگ اس طریق میں امام کی اقتدا کریں اور اسی کے مطابق کریں ۔(معرفۃ السنن والآثار: 300/5)ادعیہ میں امام جہر کرے اور باقی لوگ صرف آمین کہتے رہیں ، یہ طریق سلف صالحین سے منقول نہیں ہے بلکہ عام لوگوں کو بھی میت کے لیے خاص مغفرت وعفو کی دعائیں پڑھنی چاہئیں ، جیسا کہ درج ذیل حدیث کے ظاہر سے بھی مستفاد ہے ’إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی الْمَیِّتِ فَأَخْلِصُوا لَہُ الدُّعَائَ‘ (سنن أبي داود، الجنائز، باب الدعاء، للمیت، حدیث: 3199، وصححہ ابن حبان)’’جب تم میت کی نماز جنازہ پڑھو تو خلوص سے اس کے لیے دعا کرو۔‘‘ (الاثری)
[3] المغني لابن قدامۃ: 373/2، مسئلہ: 1573 مجھے بھی اس کے ماخذ کا پتہ نہیں چل سکا۔