کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 386
ڈال دیں۔‘‘[1]اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سارے جسم کو ڈھانپنا ضروری ہے۔
11 سفید اور صاف ستھرے کفن کا انتخاب کرنا مستحب ہے:
بہتر یہ ہے کہ کفن سفید اور صاف ہو،نیا کپڑا ہو یا پرانا جائز ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((اِلْبَسُوا مِنْ ثِیَابِکُمُ الْبَیَاضَ،فَإِنَّھَا مِنْ خَیْرِ ثِیَابِکُمْ،وَکَفِّنُوا فِیھَا مَوْتَاکُمْ))
’’سفید لباس پہنو،یہ تمھارے بہترین لباس میں سے ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دو۔‘‘[2]
اور کفن کو عود(خوشبودار لکڑی)کی دھونی دینا مستحب ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِذَا أَجْمَرْتُمُ الْمَیِّتَ فَأَجْمِرُوہُ ثَلَاثًا))’’جب تم میت کو دھونی دو تو تین بار دو۔‘‘[3]
مرد اور عورت کے لیے تین چادریں ہوں،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید سحول کے بنے ہوئے نئے کپڑوں میں کفنایا گیا تھا اور ان میں قمیض اور پگڑی نہیں تھی۔[4] البتہ محرم کو اس کے احرام ہی میں کفنایا جائے۔ایک کو تہبند اور دوسری کو بڑی چادر بنالیا جائے۔اسے خوشبو نہ لگائی جائے اور سر نہ ڈھانپا جائے تاکہ وہ اپنے احرام میں باقی رہے،اس لیے کہ عرفات کے دن جب ایک صحابی رضی اللہ عنہ اپنی سواری پر سے گر کر فوت ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِغْسِلُوہُ بِمَائٍ وَّسِدْرٍ وَّکَفِّنُوہُ فِي ثَوْبَیْنِ وَلَا تُحَنِّطُوہُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَہُ،فَإِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مُلَبِّیًا))
’’اسے پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دو اور اسے اس کے دو کپڑوں میں کفناؤ۔نہ خوشبو لگاؤ اور نہ ہی اس کا سر ڈھانپو،اس لیے کہ یہ قیامت کے دن تلبیہ کہتا ہوا اٹھے گا۔‘‘[5]
12 ریشمی کفن کا حکم:
مسلمان مرد کو ریشمی کپڑے میں کفن دینا حرام ہے،اس لیے کہ مردوں کے لیے ریشمی لباس استعمال کرنا حرام ہے۔عورتوں کے لیے اگرچہ ریشم پہننا حلال ہے مگر انھیں اس میں کفنانا درست نہیں ہے،اس لیے کہ یہ اسراف اور غلو ہے،جس سے شارع علیہ السلام نے منع کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے:
((لَا تُغَالُوا فِي الْکَفْنِ فَإِنَّہُ یُسْلَبُہُ سَلْبًا))’’کفن میں غلو(فضول خرچی)نہ کرو،یہ جلدی چھین لیا جاتا ہے۔‘‘[6]
[1] صحیح البخاري، الجنائز، باب إذا لم یجد کفناً إلا ما یواري رأسہ أو قدمیہ غطی بہ رأسہ، حدیث: 1276۔
[2] [صحیح] سنن أبي داود، اللباس، باب في البیاض، حدیث : 4061، وجامع الترمذي، الأدب، باب ماجاء في لبس البیاض، حدیث: 2810۔
[3] [ضعیف] مسند أحمد: 331/3، والمستدرک للحاکم: 355/1 صححہ الحاکم ووافقہ الذھبي وصححہ ابن حبان، موارد: 752۔ اعمش کے سماع کی تصریح نہیں ملی۔
[4] صحیح البخاري، الجنائز، باب الثیاب البیض للکفن، حدیث: 1264۔
[5] صحیح البخاري، الجنائز، باب الحنوط للمیت، حدیث: 1266، وصحیح مسلم، الحج، باب ما یفعل بالمحرم إذا مات، حدیث: 1206 واللفظ لہ۔
[6] [ضعیف] سنن أبي داود، الجنائز، باب کراھیۃ المغالاۃ في الکفن، حدیث: 3154، یہ روایت ابومالک عمرو بن ہاشم الجنبی کی وجہ سے ضعیف ہے۔