کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 382
((إِذَا حَضَرْتُمُ الْمَرِیضَ أَوِ الْمَیِّتَ فَقُولُوا خَیْرًا،فَإِنَّ الْمَلَائِکَۃَ یُؤَمِّنُونَ عَلٰی مَا تَقُولُونَ)) ’’جب تم بیمار یا میت کے پاس جاؤ تو اچھی بات کہو،اس لیے کہ فرشتے اس بات پر آمین کہتے ہیں جو تم کہتے ہو۔‘‘[1] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر گئے تو ان کی آنکھیں کھلی تھیں،آپ نے انھیں بند کیا،پھر فرمایا: ((إِنَّ الرُّوحَ إِذَا قُبِضَ تَبِعَہُ الْبَصَرُ‘ فَضَجَّ نَاسٌ مِّنْ أَھْلِہِ فَقَالَ:’لَا تَدْعُوا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ إِلَّا بِخَیْرٍ،فَإِنَّ الْمَلَائِکَۃَ یُؤَمِّنُونَ عَلٰی مَا تَقُولُونَ)) ’’روح جب قبض ہو جاتی ہے تو نظر اس کا پیچھا کرتی ہے،پھر اس کے گھر کے افراد رونے لگے تو آپ نے فرمایا:’’اپنے نفسوں کے لیے صرف اچھائی کی دعا کرو،تم جو کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔‘‘[2] وفات سے لے کر دفن تک کے جملہ مسائل: 1 وفات کا اعلان کرنا: مسلمان کی وفات کا اعلان اس کے قرابت داروں،دوستوں اور نیک لوگوں میں کرنا مستحب ہے کہ وہ اس کے جنازے میں شریک ہو جائیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کے فوت ہونے کی لوگوں کو اطلاع دی تھی،اسی طرح جب زید رضی اللہ عنہ،جعفر رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تھے تو آپ نے ان کی وفات کا اعلان کیا۔جس اعلان سے منع کیا گیا ہے وہ ایسا اعلان ہے جو گلیوں اور مساجد کے دروازوں پر کھڑے ہو کر اونچی آواز سے چیخ چیخ کر کیا جائے،اس طرح کا اعلان شرعاً ممنوع ہے۔ 2 نوحہ کی حرمت اور رونے کا جواز: بین کرنا اور آواز کے ساتھ رونا حرام ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((إِنَّ الْمَیِّتَ لَیُعَذَّبُ بِبُکَائِ الْحَيِّ))’’زندوں کے رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔‘‘[3] نیز فرمایا:’مَنْ نِّیحَ عَلَیْہِ فَإِنَّہُ یُعَذَّبُ بِمَا نِیحَ عَلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ ’’جس پر بین کیا جائے،قیامت کے دن اس بین کی وجہ سے اسے عذاب ہوگا۔‘‘[4] ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی بیعت میں یہ اقرار بھی لیتے تھے کہ وہ نوحہ نہیں کریں گی۔[5] نیز ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بَرِیئَ مِنَ الصَّالِقَۃِ وَالْحَالِقَۃِ وَالشَّاقَّۃِ‘
[1] صحیح مسلم، الجنائز، باب مایقال عند المریض والمیت، حدیث: 919۔ [2] صحیح مسلم، الجنائز، باب في إغماض المیت والدعاء لہ:، حدیث: 920۔ [3] صحیح البخاري، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم : یعذب المیت ببعض بکاء أھلہ علیہ:، حدیث: 1290۔ ظاہرًا یہ روایت آیت مبارکہ کے خلاف ہے مگر اس سے وہ فوت شدہ شخص مراد ہے جو بین یا رونے پر راضی تھا یا اس کی وصیت کر گیا تھا۔اسی لیے بعض روایات حدیث میں ’ببعض بکاء أھلہ‘ وارد ہوا ہے۔ (سنن النسائي، الجنائز، باب النیاحۃ علَی المیت، حدیث: 1858)، لہٰذا یہ عذاب اس کے اپنے جرم کی بنیاد پر ہے۔واللہ اعلم (الاثری) [4] صحیح مسلم، الجنائز، باب المیت یعذب ببکاء أھلہ علیہ، حدیث: 933۔ [5] صحیح البخاري، التفسیر، باب ،حدیث: 4892۔