کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 38
حضرت ہارون علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:﴿وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَـٰنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي﴿٩٠﴾ ’’اور یقینا تمھارا رب رحمان ہے،پس میری پیروی کرو اور میرا حکم مانو۔‘‘[1] طلبِ رحم میں حضرت زکریا علیہ السلام کی درخواست اس انداز کی تھی:﴿رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا﴿٤﴾ ’’اے میرے رب!بے شک میری ہڈیاں بوسیدہ ہو گئی ہیں اور سر سفید ہو گیا ہے اور اے میرے رب!میں تجھے پکار کر کبھی محروم نہیں رہا۔‘‘[2] مزید یہ دعا کی:﴿رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ﴿٨٩﴾’’اے میرے رب!مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے اچھا وارث ہے۔‘‘[3] قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ایک استفسار کے جواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام عرض کریں گے:﴿مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ﴾ ’’میں نے انھیں صرف وہی کہا جس کا تو نے مجھے حکم دیا کہ اللہ کی عبادت کرو،جو میرا اور تمھارا رب ہے۔‘‘[4] اور اپنی قوم سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:﴿يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ﴿٧٢﴾ ’’اے بنی اسرائیل!اللہ کی عبادت کرو،جو میرا اور تمھارا رب ہے،جس نے اس کے ساتھ شرک کیا،یقینا اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ہو گا۔‘‘[5] کرب وتکلیف کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلماتِ طیبّہ کا ورد فرمایا کرتے تھے:((لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ الْعَظِیمُ الْحَلِیمُ،لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ،لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیمِ)) ’’عظمت والے اور بردبار اللہ کے سوا کوئی(سچا)معبود نہیں۔اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو عرشِ عظیم کا مالک ہے۔اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو آسمانوں اور زمین کا رب اور عزت والے عرش کا مالک ہے۔‘‘[6] تمام انبیاء ورسل علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر یقین رکھتے تھے،اسی کو مدد کے لیے پکارتے تھے۔اور یہ لوگوں میں سب سے زیادہ ذی شعور،معرفت میں کامل اور قول کے سچے تھے اور انھیں روئے زمین کی تمام مخلوقات سے بڑھ کر،اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کی معرفت حاصل تھی۔ 3:علم ودانش اور حکمت و فراست کے حامل کروڑوں انسانوں کا ربِ کائنات کی ربوبیت پر پختہ یقین اور اعتراف
[1] طٰہٰ 90:20۔ [2] مریم 4:19۔ [3] الأنبیآء 89:21۔ [4] المآئدۃ 117:5۔ [5] المآئدۃ 72:5۔ [6] صحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب دعاء الکرب، حدیث: 2730