کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 364
’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس شخص پر رحم کرے،جس نے عصر سے پہلے چار رکعات پڑھیں۔‘‘[1] ٭ نوافل: 1: نوافل کی فضیلت: نفل نماز کی بڑی فضیلت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَا أَذِنَ اللّٰہُ لِعَبْدٍ فِي شَيئٍ أَفْضَلَ مِنْ رَّکْعَتَیْنِ یُصَلِّیھِمَا،وَإِنَّ الْبِرَّ لَیُذَرُّ عَلٰی رَأْسِ الْعَبْدِ مَادَامَ فِي صَلَاتِہِ)) ’’اللہ تعالیٰ نے بندے کو کسی ایسی چیز کی اجازت نہیں دی جو ان دو نوافل سے بہتر ہو،جنھیں وہ ادا کرتا ہے اور بندہ جب تک اپنی نماز میں رہتا ہے اس کے سر پر نیکی ڈالی جاتی ہے۔‘‘[2] ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہشت میں معیت کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ((فَأَعِنِّي عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُودِ))’’کثرتِ سجود(کثرتِ نوافل)کے ساتھ میری معاونت کرو۔‘‘[3] 2: نفل نماز کی حکمت: فرض نمازوں میں کمی کو نوافل سے پورا کیا جائے گا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((إِنَّ أَوَّلَ مَا یُحَاسَبُ النَّاسُ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ أَعْمَالِھِمْ:اَلصَّلَاۃُ،قَالَ،یَقُولُ رَبُّنَا عَزَّوَجَلَّ لِلْمَلَائِکَۃِ۔وَھُوَ أَعْلَمُ:۔اُنْظُرُوا فِي صَلَاۃِ عَبْدِي أَتَمَّھَا أَمْ نَقَصَھَا؟ فَإِنْ کَانَتْ تَامَّۃً کُتِبَتْ لَہُ تَامَّۃً،وَإِنْ کَانَ انْتَقَصَ مِنْھَا شَیْئًا،قَالَ:اُنْظُرُوا ھَلْ لِّعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَإِنْ کَانَ لَہُ تَطَوُّعٌ قَالَ:أَتِمُّوا لِعَبْدِي فَرِیضَتَہُ مِنْ تَطَوُّعِہِ،ثُمَّ تُؤْخَذُ الْأَعْمَالُ عَلٰی ذَاکُمْ)) ’’قیامت کے دن لوگوں کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گا،اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرشتوں کو حکم دیں گے اور وہ خوب جانتا ہے۔میرے بندے کی نماز دیکھو،اس نے اسے مکمل کیا ہے یا ناقص چھوڑا ہے۔اگر پوری ہے تو لکھ دیا جائے گا کہ اس کی نماز مکمل ہے اور اگر کچھ کمی ہوئی تو حکم فرمائے گا کہ میرے بندے کی نفل نماز دیکھو اگر نوافل اس کی نماز میں ہوں گے تو اللہ فرمائے گا:میرے بندے کے فرائض کو اس کے نوافل سے پورا کر دو اور پھر باقی اعمال بھی اسی طرح دیکھے جائیں گے۔‘‘[4] 3: نوافل کا وقت: چار اوقات کے سوا دن اور رات کے سب اوقات میں نفل پڑھے جاسکتے ہیں۔وہ چار اوقات یہ ہیں:
[1] [صحیح] جامع الترمذي، الصلاۃ، باب ما جاء في الأربع قبل العصر، حدیث: 430، وصحیح ابن خزیمۃ: 206/2، حدیث: 1193 واللفظ لہ۔ [2] [ضعیف] جامع الترمذي، فضائل القرآن، باب ما تقرب العباد إلی اللّٰہ بمثل ماخرج منہ، حدیث: 2911 وقال:غریب، اس کی سند لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے ضعیف ہے۔ [3] صحیح مسلم، الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ، حدیث: 489۔ [4] [صحیح ] سنن أبي داود، الصلاۃ، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم : کل صلاۃ لا یتمھا صاجھا تتم من تطوعہ، حدیث: 864، ومسندأحمد : 425/2، اسے امام حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔