کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 361
سورۂ ’’الاعلی‘‘ اور دوسری میں ’’الغاشیہ‘‘ پڑھے۔ سنت وتر،سنت فجر،مؤکدہ سنتیں اور دیگر نوافل: ٭ نماز وتر کا بیان 1: نماز وتر کا حکم اور اس کی تعریف: وتر لازمی سنت ہے،جسے کسی حال میں بھی مسلمان ترک نہ کرے۔عشاء کے بعد رات کے نوافل کے آخر میں ایک رکعت کو وتر کہتے ہیں،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:((صَلَاۃُ اللَّیْلِ مَثْنٰی مَثْنٰی،فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُکُمُ الصُّبْحَ صَلّٰی رَکْعَۃً وَّاحِدَۃً،تُوتِرُ لَہُ مَاقَدْ صَلّٰی)) ’’رات کی نماز دو دو رکعت ہے،جب تم میں سے کسی کو صبح ہونے کا اندیشہ ہو جائے تو ایک رکعت پڑھے،اس طرح اس کی ساری پڑھی ہوئی نماز وتر(طاق)بن جائے گی۔‘‘[1] 2: وتر سے قبل سنت طریقہ کیا ہے: مسنون طریقہ یہ ہے کہ وتر سے پہلے کم از کم دو رکعت یا زیادہ سے زیادہ دس رکعات تک پڑھے،پھر وتر پڑھے۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔ 3: وتر کا وقت: عشاء کی نماز کے بعد سے لے کر طلوعِ فجر سے پہلے تک،وتر کا وقت ہے۔بہتر یہ ہے کہ رات کے آخری حصے میں اسے پڑھا جائے،اگرچہ ابتدائی حصے میں بھی جائز ہے،الّا یہ کہ بیدار نہ ہونے کا اندیشہ ہو(تو عشاء کے بعد سونے سے پہلے پڑھ لے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَنْ خَافَ أَنْ لَّا یَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ فَلْیُوتِرْ أَوَّلَہُ،وَمَنْ طَمِعَ أَنْ یَّقُومَ آخِرَہُ فَلْیُوتِرْ آخِرَ اللَّیْلِ،فَإِنَّ صَلَاۃَ آخِرِ اللَّیْلِ مَشْھُودَۃٌ وَّذٰلِکَ أَفْضَلُ)) ’’جس کا خیال یہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں بیدار نہیں ہو سکے گا تو وہ اول حصے میں وتر پڑھ لے اور جو گمان کرتا ہے کہ وہ آخری حصے میں بیدار ہو جائے گا،وہ رات کے آخری حصے میں ہی وتر پڑھے،اس لیے کہ رات کے آخری حصہ کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور وہ افضل ہے۔‘‘[2] 4: جو شخص وتر پڑھے بغیر سو جائے اور صبح ہو جائے: ایک مسلمان سویا رہا اور وتر نہ پڑھ سکا اور اسی طرح صبح ہو گئی تو وہ صبح کی نماز سے پہلے قضا کر لے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’إِذَا أَصْبَحَ أَحَدُکُمْ وَلَمْ یُوتِرْ فَلْیُوتِرْ‘’’اگر تم میں سے کوئی شخص صبح ہونے تک وتر نہ پڑھ سکے تو(صبح کے وقت بھی)وتر پڑھ لے۔‘‘[3] نیز ارشاد ہے:’مَنْ نَّامَ عَنْ وِّتْرِہِ أَوْ نَسِیَہُ فَلْیُصَلِّہِ إِذَا ذَکَرَہُ‘ ’’جو سویا رہا یا بھول گیا اور وتر نہ پڑھ سکا تو جب یاد آئے وتر پڑھ لے۔‘‘[4]
[1] صحیح البخاري، الوتر، باب ماجاء في الوتر، حدیث: 990۔ [2] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب من خاف أن لایقوم من آخر اللیل فلیوتر أولہ، حدیث: 755۔ [3] المستدرک للحاکم: 304,303/1 اسے امام حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔ [4] [صحیح] سنن أبي داود، الوتر، باب في الدعاء بعد الوتر، حدیث: 1431، اسے امام حاکم، ذہبی اور امام عراقی نے صحیح کہا ہے۔