کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 349
حَيَّ عَلَی الفَلَاحِ‘ کے جواب میں ’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ‘ کہے اور ’قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ‘ کے جواب میں بھی ’قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ‘ ہی کہے اور جو روایت سنن ابو داود میں ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت میں ’قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ‘ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’أَقَامَھَا اللّٰہُ وَأَدَامَھَا‘ کہا۔وہ ضعیف ہے،ثابت نہیں۔[1] اور صحیح مسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا:مِثْلَ مَا یَقُولُ،ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ،فَإِنَّہُ مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ صَلَاۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ بِھَا عَشْرًا،ثُمَّ سَلُوا اللّٰہَ لِيَ الْوَسِیلَۃَ،فَإِنَّھَا مَنْزِلَۃٌ فِي الْجَنَّۃِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِّنْ عِبَادِ اللّٰہِ،وَأَرْجُو أَنْ أَکُونَ أَنَا ھُوَ،فَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِیلَۃَ حَلَّتْ عَلَیْہِ الشَّفَاعَۃُ)) ’’جب تم اذان سنو تو مؤذن کی طرح کہو،پھر مجھ پر درود پڑھو،جو ایک بار مجھ پر درود پڑھتا ہے،اللہ اس پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے۔پھر میرے لیے ’’وسیلہ‘‘ کا سوال کرو،یہ جنت میں ایک مقام ہے،جواللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے ہی کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ میں ہی وہ بندہ ہوں،لہٰذا جو اللہ سے میرے لیے وسیلہ کا سوال کرتا ہے اس کے لیے میری سفارش حلال ہو گئی۔‘‘[2] 3: اذان اور اقامت کے درمیان دعائے خیر کرنی چاہیے،جامع ترمذی میں حسن سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے:’اَلدُّعَائُ لَا یُرَدُّ بَیْنَ الْأَذَانِ وَالإِْقَامَۃِ‘ ’’اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی۔‘‘[3] مغرب کی اذان کے وقت یہ دعا بھی مروی ہے:((اَللَّھُمَّ!إِنَّ ھٰذَا إِقْبَالُ لَیْلِکَ وَإِدْبَارُ نَھَارِکَ وَأَصْوَاتُ دُعَاتِکَ فَاغْفِرْلِي)) ’’اے اللہ!یہ تیری رات کے آنے،تیرے دن کے جانے اور تجھے پکارنے والوں کا وقت ہے،پس مجھے بخش دے۔‘‘[4] قصر،جمع،بیمار کی نماز اور نمازِ خوف کا بیان: 1نماز قصر کا معنی: قصر کا معنی یہ ہے کہ چار رکعت والی نماز دو رکعت پڑھی جائے،جس میں سورئہ فاتحہ اور کسی دوسری سورت کی قراء ت ہو گی۔مغرب اور صبح کی نماز میں قصر نہیں ہے،اس لیے کہ مغرب کی تین رکعتیں ہیں اور صبح کی دو رکعتیں۔
[1] [ضعیف] سنن أبي داود، الصلاۃ، باب ما یقول إذا سمع الإقامۃ، حدیث: 528، اس کی سند دو علتوں کی وجہ سے ضعیف ہے: 1 محمد بن ثابت کا ضعیف ہونا 2اور اس کے شیخ کا مجہول ہونا۔ [2] صحیح مسلم، الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذن، حدیث: 384۔ [3] [حسن] جامع الترمذي، الدعوات، باب في العفو و العافیۃ، حدیث: 3594، وسنن أبي داود، الصلاۃ، باب في الدعاء بین الأذان والإقامۃ، حدیث: 521۔ [4] [صحیح ] سنن أبي داود، الصلاۃ، باب مایقول عند أذان المغرب، حدیث: 530، اسے امام حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔